روح، دل اور نفس کی حقیقت

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

روحانیت کے موضوع پر لکھے گئے بلاگ میں ہم نے تذکرہ کیا تھا کہ انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے ایک اس کا جسم ہے اور دوسرا روح۔ روح کو نہ کوئی دیکھ سکتا ہے اور نہ چھو سکتا ہے مگر جب یہی روح انسانی جسم سے پرواز کر جاتا ہے تو پھر انسان کو اپنے نام کے بجائے مردہ اور لاش کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ہم اکثر روح، نفس اور دل کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے ہیں مگر روح، نفس اور دل کی حقیقت کیا ہے۔ اس بات کو جاننا اور سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ جو لوگ اپنے دل اور نفس سے ناواقف ہیں ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ آج کے بلاگ میں اس اہم موضوع پر بات کریں گے ۔

کیا جسمانی دل ہی دل ہے ؟

دراصل انسان کی فضیلت اسی بنا پر ہے کہ وہ خدا کی معرفت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ معرفت الہی کا محل دل ہے۔ خدا کی حقیقی اطاعت دل کا عمل ہے۔ باقی اعضاء کی عبادت اسی عمل کا مظہر ہے۔ دل منبع روح اور سر چشمہ حیات ہے۔ دل حقیقت میں ایک روحانی ربانی لطیفہ ہے۔ اس لطیفے اور جسمانی دل کا ایک دوسرے سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ مکین اور مکان ۔یہی لطیفہ انسان کی حقیقت ہے۔

انسان اور حیوان کے دل میں فرق

انسان کا دل جانوروں کے دل سے دو وجوہات کی بنا پر مختلف ہے ایک علم اور دوسرا ارادہ۔ ارادے سے یہاں مراد وہ ارادہ ہے جو انسان کو شہوات و خواہشات بد سے روکیں یعنی انسان تو جانوروں کی طرح اپنی خواہشات کا پیچھا نہیں کریں گا بلکہ اپنے اعمال کے نتیجے پر نظر رکھ کر قدم اٹھائے گا۔

مومن اور منافق کے دل میں فرق

مومن اور منافق کے دل میں فرق کو قرآن مجید نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ مومن کے دل کا مثال تو ایک روشن چراغ کی طرح ہے جو نہ صرف خود روشن ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی روشنی (ہدایت) کی فراہمی کا ذریعہ ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں منافق کے دل کو گہرے سمندر کے اندر اندھیروں کا نام دیا گیا ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کے دل ایک دوسرے کے ضد ہوتے ہیں ۔

گناہوں کی وجہ سے دل سیاہ ہو جاتا ہے جن پر حق بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ دل کا شیشہ جتنا میلا ہوگا اتنا ہی ان پر معرفت الہی کا عکس کم پڑے گا۔ یاد رہے کہ قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے اوامر (نیکیوں) کے مقابلے میں منہیات (گناہوں سے بچنا) ہے ۔

کن لوگوں کے دلوں پر امور حق منکشف نہیں ہوتے

پانچ طرح کے دلوں پر حق امور منکشف نہیں ہوتے۔ پہلا قلب ناقص یعنی بچوں کا دل، دوسرا گناہوں سے آلودہ دل، تیسرا جب بندہ نیک ہو لیکن اس میں حق کا طلب نہ ہو، چوتھا جب بندہ تقلیدی اعتقادات کی پیروی کرے اور وہ ان کے دل میں راسخ ہو جائے خواہ وہ اعتقاد حق ہی کیوں نہ ہو، پانچواں جب وہ جہت ہی معلوم نہ ہو جہاں مطلوب حاصل ہو سکتا ہے۔

علم کے لحاظ سے دلوں کے اقسام

علم کے لحاظ سے بھی دل مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ انبیاء اور اولیاء کے دل ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ حکما وعلما کے دل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ حکماء و علماء محنت اور جدوجھد کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں جبکہ اولیاء اور انبیاء کے دل اتنے صاف ہوتے ہیں کہ اس میں معرفت الہی کے راستے علوم داخل ہوتے ہیں۔

اسی طرح ہر دل میں علوم کے داخل ہونے کے لیے بھی دو دروازے ہوتے ہیں ایک علوم ظاہری کے لئے ہوتا ہے جبکہ دوسرا علوم باطنی (علوم مکاشفہ) کے لیے۔

دل کا رحجان نیکی کی طرف ہوتا ہے یا بدی کی طرف

دل اپنی فطرت کے لحاظ سے سے نیکی اور بدی کے آثار مساوی طور پر قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ البتہ خواہشات کی مخالفت یا غلامی کی وجہ سے کسی ایک جانب کو رجوع اور ترجیح ہوتی ہے۔

دلوں کو مردہ کرنے والی خصلتیں

ان خصلتوں میں اکثریت قول و فعل کے تضاد سے متعلق ہیں جیسا کہ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوئی لیکن اس نے اس کی قدر نہ کی ، قرآن مجید پڑھا لیکن ان پر عمل نہیں کیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دم بھرتا ہے مگر سنت کی پیروی نہیں کرتا، موت سے ڈرتا ہے لیکن موت کی بعد کی زندگی کے لئے کوئی تیاری نہیں کرتا، دوزخ سے خائف ہے لیکن برے اعمال کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں، جنت کا خواہشمند ہے لیکن نیکی کے راستے پر چلنے کو تیار نہیں، اپنی عیوب کو بھول کر دوسروں کی غلطیوں پر انگلیاں اٹھاتا ہے اور رحمان کے بجائے شیطان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔

روح

روح ایک جسم لطیف ہے جس کا منبع جسمانی دل کا خلا ہے، روح چراغ ہے اور حیات اس کی روشنی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے روح کو اپنا امر یعنی حکم قرار دے دیا ہے۔

نفس

نفس انسان کے اندر مذموم صفات (شہوات و خواہشات بد) کا نام ہے اسی لئے صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ نفس کے خلاف مجاہدہ کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا “تیرا سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو تمہارے پہلو میں ہے” لیکن نفس بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں قرآن مجید میں نفس کی تین اقسام بیان کئے گئے ہیں۔

نفس مطمئنہ

پہلا قسم نفس مطمئنہ ہے ۔ یہ وہ نفس ہے جو اللہ تعالی کا اطاعت گزار بن چکا ہے۔ مگر نفس کو خدا کا اطاعت گزار بنانا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ جہاد سے واپسی پر صحابہ کو جہاد اکبر کی طرف خوش آمدید کہا تو صحابہ نے حیرانی سے پوچھا کہ “یا رسول اللہ! جہاد اکبر کیا ہے؟” تو آپ نے فرمایا اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا۔

یا یہ کہ اگر کوئی انسان ایک قدم اپنے نفس پر رکھتا ہے تو اس کا دوسرا قدم جنت میں ہوتا ہے۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نفس مطمئنہ دراصل انبیاء ، صحابہ ،اولیاء اللہ اور دیگر نیک لوگوں کا نفس ہوتا ہے ۔

نفس لوامہ

اس قسم کا نفس گناہ گار ہوتا ہے مگر اپنے گناہوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ملامت بھی کرتا رہتا ہے۔

نفس امارہ

قرآن مجید میں اس نفس کو نفس امارۃ بالسوء کہا گیا ہے۔ یہ سرکش نفس ہوتا ہے جو صرف اور صرف بدی کی بات بتاتا ہے جو گمراہ ہو چکا ہوتا ہے۔ جو شیطان سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔

ریاضت کی حقیقت تک قریب و بعید لوگ

امام غزالی نے احیاء العلوم کی تیسری جلد میں اس لحاظ سے لوگوں کے چار اقسام بیان کئے ہیں۔ پہلا قسم وہ لوگ جو خدا کے ذکر میں مستغرق رہتے ہیں، یہ جنتی ہوتے ہیں۔ دوسرا قسم وہ لوگ جو ہر وقت دنیاوی مشاغل میں ڈوبے رہتے ہیں خدا کا ذکر کرتے بھی ہیں مگر صرف زبان سے۔ تیسرے قسم کے لوگ دین و دنیا دونوں میں مشغول رہتے ہیں مگر ان کے دلوں پر غلبہ دین کا ہوتا ہے یہ لوگ بھی دوزخ میں جائیں گے مگر دل پر دین کے غلبے کی وجہ سے جلد خلاصی پائیں گے اور چوتھے قسم کے لوگ دین و دنیا دونوں میں مشغول رہتے ہیں اور دل پر غلبہ دنیا کا ہوتا ہے یہ لوگ زیادہ دیر تک دوزخ میں رہیں گے۔

مزاج، طبیعت اور رویے میں کیا فرق ہے، اچھا مزاج کیوں ضروری ہے۔

شیطان کے دروازے، جن کے ذریعے وہ انسان پر حملہ آور ہوتا ہے

مادیت بمقابلہ روحانیت، یہ روحانیت کیا چیز ہے

1 thought on “روح، دل اور نفس کی حقیقت”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *