دوستی کی اہمیت، دوستوں کے اقسام اور حقوق

روحیں ایک مجمع لشکر ہے، ہوا میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور قریب ہوتے ہیں (الحدیث)

حدیث سے مراد یہ ہے کہ طبیعتوں میں مناسبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک جیسے لوگ دوست بن جاتے ہیں۔

دوسرا حدیث ہے کہ “اگر ایک مومن کسی ایسے مجلس میں جائے جہاں تمام منافق ہو اور ایک صاحب ایمان ہو تو وہ صاحب ایمان کے پاس جا بیٹھے گا اور اگر کوئی منافق۔۔۔۔”

ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو نہ خود محبت کرے اور نہ دوسرے اس سے محبت کریں۔

مشہور یونانی فلسفی ارسطو کے مطابق دوستی کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی قسم وہ دوستی ہے جن کی بنیاد مفادات پر ہو یعنی مشترکہ مفادات کی خاطر جب لوگ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں مثلاً کہ امتحان کے لیے اکھٹے مطالعہ کرنا وغیرہ۔ یہ دوستی مفادات پورا ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

دوستی کی دوسری قسم میں خوشی کا جذبہ شامل ہوتا ہے جیسا کہ اکٹھے محفلوں میں جانا وغیرہ۔

تیسری قسم کی دوستی میں بندے سے دوستی کی جاتی ہے یہ مفادات اور جذبات سے بالا ہوتی ہے یہ غیر مشروط دوستی ہوتی ہے۔ یہی دوستی کی اصل اور اعلیٰ قسم ہے۔

دوستی کے شرائط

امام غزالی کے مطابق دوست عقل مند اور خوش اخلاق ہونے چاہیے کیونکہ بے وقوف دوست آپ کو نفع پہنچانا چاہے گا مگر اپنی بے وقوفی کی وجہ سے آپ کا نقصان کرے گا، بداخلاق دوست آپ کی بدنامی کا باعث بنے گا۔ اگر خامیوں کی بات کی جائے تو کنجوس، لالچی، مال کے حریص، جھوٹے اور بزدل دوست سے دوست نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔

دوستوں کے دائرے

حال ہی میں ایک صحافی نے دوستی پر تحقیق کرکے ان کے کئی دائرے وضع کیے ہیں۔ ہر دوسرا دائرہ پہلے والے سے تین گنا بڑا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق پہلا دائرہ 5 قریبی دوستوں پر مشتمل ہوتا ہے، دوسرا دائرہ 15 ہمدرد دوستوں کا گروہ، تیسرا دائرہ 50 اچھے دوستوں کا گروپ، چوتھے دائرے میں 150 کم قریب دوست، پانچویں دائرے میں جان پہچان والے 500 لوگ اور چھٹے دائرے میں وہ 1500 لوگ شامل ہیں جنہیں دیکھ کر نام یاد آجاتا ہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا کی وجہ سے آخری دو دائرے مزید وسیع ہو گئے ہیں لیکن پہلے دو دائرے کمزور ہو چکے ہیں۔ ہمیں تمام گروہوں کے درمیان توازن رکھنا چاہیے۔

دوستوں کے ایک دوسرے پر حقوق

احیاء العلوم میں دوستوں کے ایک دوسرے پر آٹھ حقوق کا ذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

اپنے دوستوں کی بلا مانگے مالی مدد کرنی چاہیے اس ضمن میں ایک حقیقی واقعہ ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک دوست نے اپنے دوست کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اپنی معاشی تنگدستی کا ذکر کیا۔ میزبان گھر کے اندر آیا اور پیسوں سے بھری ایک تھیلا اپنے دوست کو دے دیا اور واپس گھر میں آ کر رونے لگا۔ بیوی نے کہا اگر پیسوں سے اتنی محبت ہے تو کیوں پیسے دیے۔ اس صاحب نے کہا پیسوں سے محبت کی بات نہیں اس پر رو رہا ہوں کہ میں اتنا گیا گزرا دوست ہوں کہ دوستوں کی مدد کرنے کے لئے انہیں مجھے بتانا پڑتا ہے حالانکہ یہ میرا فرض ہے کہ میں پہلے سے اپنے دوستوں کا حال معلوم کروں اور ان کی مدد کروں۔

دوسرا حق نفس سے متعلق ہے کہ بدنی لحاظ سے بھی دوستوں کی مدد کرنی چاہئے جسے ہاتھ پاؤں کی مدد کہا جاتا ہے۔

زبان سے متعلق دوستی کا حق یہ ہے کہ دوست کے عیوب کا ذکر نہ کیا جائے۔ اس کے راز افشا نہ کیا جائے۔ اس سے فضول بحث نہ کی جائے اور ان کا قطع کلام نہ کیا جائے۔

اسی طرح زبان کی خاموشی کی طرح قلبی سکوت بھی واجب ہے۔ کہ ان کے ساتھ بدگمانی نہ کرو یہاں تک کہ مسلمان بھائی کی ستر پوشی کے لیے جھوٹ بولنا بھی جائز ہے کہ لاعلمی کا اظہار کیا جائے۔ دوست کے ساتھ محبت، غم اور خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔ وہ آپ کی مدد کریں تو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اگر ایسا موقع آئے کہ ان کی دفاع کی ضرورت پیش آئے تو ان کی دفاع کرنی چاہیے۔ جو شخص اپنے دوست کے حق میں مخلص نہ ہو وہ منافق ہے۔

غلطی کی صورت میں دوستوں کو معاف کرنا چاہیے۔ معافی نہ کرنے کی صورت میں قطع تعلق کا خوف ہوتا ہے اور یاد رہے کہ دوستوں کے درمیان قطع تعلق سے شیطان خوش ہوتا ہے۔

اپنے دوستوں کے لئے خدا سے دعا مانگنی چاہیے۔ جلیل القدر صحابی حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے میں اپنے سجدوں میں سترہ دوستوں کے لیے دعائے خیر کرتا ہوں اور ہر دوست کا الگ الگ نام لیتا ہوں۔

وفا کا معنٰی ہے کہ دوست کی زندگی تک اس کی دوستی پر ثابت قدم رہے، یہی دوستی آخرت میں کام آنے والی ہے۔

دوستی تکلف اور تکلیف سے مبرا ہوتی ہے دوستوں کے درمیان کیا تکلف اور کیا تکلیف۔ بلکہ جس شخص نے اپنے دوست کے گھر میں چار کام کیے تو اس نے اخوت کی تکمیل کی۔ پہلا کھانا کھانا، دوسرا واش روم کا استعمال، تیسرا نماز پڑھنا اور چوتھا سونا۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ دوست کے گھر کو اپنا گھر سمجھنا چاہیے۔

دوستی کے درجے

دوستی کے متعدد درجے ہیں اگر دوستی مضبوط ہو تو اخوت ہے اس سے بڑھ جائے تو محبت (حبیب) کا درجہ ہے اور اگر اس سے بھی بڑھ جائے تو خلت (خلیل) کا درجہ ہے۔ محبت وہ جذبہ ہے جو سطح دل پر اثر انداز ہوتا ہے اور خلت ایسا جذبہ ہے جو دل کی رگ رگ میں سرایت کرتا ہے۔

میچوریٹی کیا ہے، میچور کون ہے، میچور شخص کی بارہ نشانیاں

آزادی یا غلامی، کیا میں خود غلام تو نہیں؟

1 thought on “دوستی کی اہمیت، دوستوں کے اقسام اور حقوق”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *