دنیا کی تاریخ: چھٹا حصہ، سولہویں سے آٹھارویں صدی تک

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

اس آرٹیکل میں پندرہ سو سے اٹھارہ سو عیسوی تک دنیا میں پیش آنے والے اہم واقعات کا ذکر کیا جائے گا۔ اس دور میں سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر پہنچی تو یورپ بھی تاریکی کے دور سے نکل چکا۔ اگرچہ اب بھی مشرق میں کئی عظیم سلطنتیں قائم تھیں مگر اٹھارویں صدی میں مجموعی طور پر ایشیا کے زوال اور یورپ کی عروج کی نشانیاں صاف طور پر نظر آنے لگی تھی اور پھر رفتہ رفتہ یورپی اقوام تقریباً پوری دنیا پر اپنے پنجے گاڑ چکے ۔

سلطنت عثمانیہ

تیرہویں صدی کے اختتام پر قائم ہونے والی یہ سلطنت اب دنیا کی سب سے مضبوط سلطنت تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں عثمانی ترکوں کے ہاتھوں مصر کی مملوک سلطنت کا خاتمہ کرکے عباسی خلیفہ کو معزول کیا گیا۔ عثمانی بادشاہ سلیم اول نے اپنے آپ کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا۔ عرب دنیا بھی ترکوں کے زیرقبضہ آئی اور اگلے چار صدیوں تک عثمانی سلطان حرمین شریفین اور بیت المقدس کے نگہبان رہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے یورپ کے اندر بھی مزید فتوحات کے ذریعے اپنی سرحدوں کو پھیلایا اور آرمینیا ، جارجیا ، آذربائجان ، ہنگری اور بلغاریہ کو فتح کر دیا گیا۔

ایران

ایران میں 1501 میں شیعہ صفوی خاندان کی حکومت شروع ہوئی تھی جو 1738 میں نادر شاہ کے بادشاہ بننے تک قائم رہی۔ یہی سلطنت ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے کئی حصوں پر مشتمل تھی۔

افغانستان

اگر چہ افغانستان طویل عرصے تک ایرانیوں کے زیر قبضہ رہا مگر 1709 میں میرویس خان ہوتک کے زیر قیادت افغان قوم آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی۔ نادر شاہ نے 1738 میں اسے دوبارہ ایران کا حصہ بنایا لیکن اس کے وفات کے ساتھ ہی احمد شاہ ابدالی نے 1747 میں افغانستان کی آزادی کا اعلان کیا اور ایران سے دہلی اور بخارا سے بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی افغانوں کی سلطنت قائم کی۔ اسی احمد شاہ نے 1761 میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دی تھی جو ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ کہلایا جاتا ہے۔

ترک بادشاہ سلطان سلیم اول

ہندوستان

سولہویں صدی کے اوائل میں ہندوستان لودھی افغانوں کے زیر حکمرانی رہا۔ 1526 میں ماضی کے مشہور منگول بادشاہ تیمور کے پڑپوتے ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کیا اور پھر اس خاندان کی حکومت 1857 میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست تک قائم رہی۔ مغلوں کے پہلے چھ بادشاہ بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہان اور اورنگزیب اہل حکمران ثابت ہوئے جبکہ 1707 میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے ساتھ ہی مغلوں کا زوال شروع ہوا۔

ہندوستان میں انگریزوں کی آمد

وہ انگریز جو جہانگیر کے زمانے (سولہویں صدی) میں تجارت کے لیے ہندوستان آئے تھے اب دیگر یورپی اقوام (فرانسیسی، پرتگیزی اور ولندیزی) کی طرح ہندوستان پر حکمرانی کے خواب دیکھنے لگیں۔ 1757 میں انگریزوں کو اس وقت ایک بڑی کامیابی ملی جب وہ ہندوستان کی مالدار ترین ریاست بنگال پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جنگ پلاسی میں میر جعفر کی غداری کی وجہ سے نواب سراج الدولہ کی فوج کو شکست ہوئی تھی ۔ 1799 میں انگریزوں اور میسور کی ریاستی لشکر کے درمیان چوتھی جنگ ہوئی اور بالآخر نوجوان بادشاہ ٹیپو سلطان کو شکست دے کر انگریز میسور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ٹیپو کو ہتھیار ڈالنے پر جان کی امان بخشنے کی پیشکش کی گئی مگر انھوں نے اس تاریخی جملے کے ساتھ یہ پیشکش ٹھکرا دی کہ “گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے”۔

شیر شاہ سوری

فرید خان (جو بعد میں شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوئے) نسل کے لحاظ سے پختون تھے اور مغل دربار میں ایک اہم منصب پر فائز تھے۔ 1540 میں دہلی کے تخت پر بابر کے بیٹے ہمایون براجمان تھے جب شیر شاہ نے مغلوں کے خلاف بغاوت کی۔ یہ جھٹکا اتنا زوردار تھا کہ ہمایون جان بچانے کی خاطر ایران فرار ہوا اور شیر شاہ نے برق رفتاری کے ساتھ پورے ہندوستان کا اس طرح کنٹرول سنبھال لیا کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ شیرشاہ کو انتظامی لحاظ سے ہندوستان کی تاریخ کے بہترین حکمران کی حیثیت حاصل ہے۔ ہمایون 1555 میں شیر شاہ کے بیٹوں سے دلی کا تخت دوبارہ چھیننے میں کامیاب ہوا۔

ہندوستان کا افغان بادشاہ شیر شاہ سوری

نادر شاہ کا دہلی پر حملہ

سترہ سو انتالیس میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا۔ دہلی کے مغل بادشاہ اور لشکر میں ایرانیوں کے مقابلے کرنے کی جرات و صلاحیت نہیں تھی، وہ ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہوئے۔ نادر شاہی لشکر نے کئی دنوں تک دہلی میں قتلِ عام اور لوٹ مار کا بازار گرم کئے رکھا۔ بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق نادر شاہ آج کے ریٹ میں 147 ارب امریکی ڈالر کی دولت اپنے ساتھ لے کر ایران واپس ہوئے تھے۔

سکھ مت کا آغاز

سولہویں صدی عیسوی میں پنجاب کے ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھنے والے روحانی پیشوا گرونانک نے اپنی روحانیت اور اچھائی کی تعلیم کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا۔ اگر چہ آپ نے کبھی بھی اپنی زندگی میں نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کے بارے میں دعویٰ نہیں کیا مگر آپ کی وفات کے بعد آپ کے پیروکاروں نے آپ کی تعلیمات کی بنیاد پر سکھ مت کے نام سے اس نئے مذہب کی بنیاد ڈالی، جن کے پیروکار آج کروڑوں میں ہیں۔

یورپ

جب ہندوستان میں بابا گرو نانک کی شکل میں ہندوؤں کے اندر سے نئے مذہب کی بنیاد رکھنے والے شخص سامنے آئے تو اسی زمانے میں یورپ میں بھی عیسائیوں کے اندر سے مذہبی رہنماؤں (پادریوں) کے خلاف مارٹن لوتھر کنگ نے پروٹسٹنٹ تحریک کا آغاز کیا جو آج کیتھولک فرقے کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کا ایک بڑا فرقہ ہے ۔

سترہویں صدی کے یورپ کا ایک منظر

سپین

سولہویں صدی میں اسپین یورپ کے اندر ایک طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ اسپین اور پرتگال نے امریکہ پہنچ کر مقامی باشندگان کو قابو کر کے اپنی کالونیاں بنائیں۔ باقی یورپی طاقتیں ایک، دو صدی بعد امریکہ پہنچیں۔ سپین نے 1560 میں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ پنجہ آزمائی کی مگر ناکام رہے، 1580 میں پرتگال کے ساتھ اتحاد کیا اور پھر دونوں اقوام نے 20 سال تک برطانیہ کے ساتھ جنگ لڑیں۔

برطانیہ

دیگر یورپی اقوام کو دیکھ کر برطانیہ نے بھی امریکہ کا رخ کر لیا اور 1607 میں ورجینیا پر قبضہ کرکے اپنی فتوحات کا آغاز کر دیا اور پھر علاقے قبضہ کرنے کی اس دوڑ میں تمام یورپی طاقتوں سے بازی لے گیا۔ یاد رہے کہ آج کے امریکہ اور کینیڈا جیسے وسیع وعریض ممالک برطانیہ کے قبضے میں تھے۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کا اتحاد ہوا۔ 1539 سے 1551 تک برطانیہ میں خانہ جنگی لڑی گئی جس کے دوران بادشاہ چارلس اول کو پھانسی دے دی گئی۔ بادشاہ کے مقابلے میں پارلیمان کو زیادہ اختیارات دے کر مضبوط بنایا گیا۔

معاہدہ ویسپیلیا

سولہ سو اٹھارہ میں یورپ میں ایک ایسی جنگ شروع ہوئی جن کی وجوہات مذہبی اور سیاسی دونوں تھیں۔ یہ جنگ 30 سال تک جاری رہی اور اس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، 80 لاکھ لوگوں کے مرنے کے بعد معاہدہ ویسپیلیا کے نام سے امن معاہدہ ہوا۔ معاہدے کا سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ رومی سلطنت کے خاتمے اور قومی ریاستوں کے قیام کا باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا یعنی کہ یورپ قومی بنیادوں پر ریاستوں میں بٹ چکا۔ ہر ریاست کو اپنے سرکاری مذہب کے انتخاب کا حق دے دیا گیا، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک عیسائیوں کو برابر کے شہری قرار دے دیا گیا۔

روس

روس سولہویں صدی میں ایک کچھوے کی مانند تھا جو اٹھارویں صدی تک ایک علاقائی طاقت کے طور پر سامنے آیا، زار سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ 1724 میں روس ایران کے آدھے حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا اور پھر یورپ و عثمانی لشکر کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے لگا، اگر چہ ان لوگوں کو ابتدا میں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا مگر بعد میں کئی معرکوں میں کامیاب بھی رہے۔

امریکا

امریکہ کے دونوں براعظم سولہویں سے اٹھارویں صدی تک یورپی اقوام کے زیرقبضہ رہے۔ اس پورے دور میں امریکہ سے جو سب سے اہم خبر سامنے آئی تھی وہ یہ تھی کہ 1776 میں جارج واشنگٹن کی قیادت میں امریکیوں نے آزادی کی جنگ میں برطانیہ کو شکست دی۔ 1789 میں امریکہ کا آئین بنایا گیا اور انتخابات کے نتیجے میں جارج واشنگٹن امریکا کے پہلے صدر بنے۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ملک ڈیڑھ صدی بعد دنیا پر حکمرانی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

دنیا کی تاریخ: پانچواں حصہ؛ تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی عیسوی تک

چینی تاریخ کا مختصر جائزہ

ہندوستان پر حکومت کرنے والے پختون بادشاہ

2 thoughts on “دنیا کی تاریخ: چھٹا حصہ، سولہویں سے آٹھارویں صدی تک”

  1. Pingback: سلطنت فارس کا مختصر تاریخی جائزہ؛ حصه اول – Aamir Zaheer

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *