مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
ساتویں صدی عیسوی سے مسلمانوں خصوصاً عربوں کی عروج کا جو دور شروع ہو چکا تھا اب تیرہویں صدی میں اسے منگول آندھی کا سامنا تھا، وقتی طور پر تو مسلمان ایسے شکستوں سے دوچار ہوئے کہ گویا مسلمانوں کے عروج کا زمانہ ختم ہوتا نظر آ رہا تھا۔ لیکن منگول طوفان کے تمنے کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ چونکہ اب بھی دنیا میں مسلمانوں کا علمی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے مقابلہ کرنے والا کوئی موجود نہیں تھا اس لیے مصر میں مملوک سلطنت، ہندوستان میں سلاطین دہلی اور خصوصاً سلطنت عثمانیہ کے قیام اور عروج نے ایک مرتبہ پھر دنیا میں ترک، عرب، کرد اور افغان مسلمانوں کی بادشاہت قائم کی۔
منگول سلطنت
بارہ سو چھ میں چنگیز خان کے ہاتھوں قائم کی گئی یہ سلطنت دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت تھی جو اپنی عروج کے زمانے میں دو کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط تھی۔ چنگیز خان اپنی زندگی میں چین، وسطی ایشیا اور خوارزمی سلطنت کو فتح کر چکا تھا۔ 1227 میں چنگیز کے وفات کے بعد اس کا بیٹا اوغتائی خان بادشاہ بنا۔ جن کے بعد یکے بعد دیگرے گویوک خان، مونکے خان اور قبلائی خان تخت نشین ہوئے۔ 1260 میں مونکے خان کے وفات کے بعد منگول سلطنت چنگیز کے پوتوں کے درمیان تقسیم ہو چکی۔
خوارزمی سلطنت کا عروج و زوال
خوارزمی سلطنت تیرہویں صدی کے آغاز میں ایک طاقتور سلطنت تھی۔ یہ سلطنت موجودہ ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے کئی علاقوں پر مشتمل تھی جن کا مجموعی رقبہ 23 سے 36 لاکھ مربع کلومیٹر تھا۔ اس سلطنت کی بنیاد 1077 میں سلجوقی حکمرانوں کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ 1221 میں آخری خوارزمی بادشاہ جلال الدین اور منگول فوج کے درمیان دو جنگیں لڑیں گئیں۔ پہلی جنگ کابل کے قریب پروان نامی علاقے میں لڑی گئی جن میں منگول فوج کو بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے آدھے سے زیادہ فوجی قتل ہوئے۔ دوسری جنگ موجودہ پاکستان میں دریائے سندھ کے کنارے لڑی گئی۔ چنگیز کی قیادت میں اس مرتبہ خوارزمی لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جلال الدین کو شکست کا اندازہ ہوا تو گھوڑے کے ساتھ دریا میں کھود پڑا اور کامیابی سے جان کو بچاتے ہوئے فرار ہوا۔ 1231 میں جلال الدین کی وفات کے ساتھ ہی اس سلطنت کا مکمل خاتمہ ہوا۔
ہلاکو خان کا بغداد پر حملہ
اس واقعہ کو اگر ہم تیرہویں صدی کا سب سے بڑا سانحہ قرار دے دیں تو غلط نہ ہوگا۔ 1257 میں ہلاکو خان نے بغداد شہر کا محاصرہ کیا اور مسلمانوں کے خلیفہ معتصم باللہ کو ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی جو خلیفہ نے ٹھکرا دی۔ فروری 1258 میں ہلاکو نے بغداد پر یلغار کر دیا ۔ خلیفہ کے مشیر علقمہ نے غداری کرکے مسلمان لشکر کے اندر بغاوت کی صورتحال پیدا کی جس نے ہلاکو کیلئے راستہ آسان کیا، مسلمانوں کو شکست ہوئی اور دنیا کا سب سے ترقی یافتہ اور خوبصورت شہر ایک ہفتہ کے اندر اندر کھنڈر بن گیا۔ 10 لاکھ تک لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری میں موجود لاکھوں نایاب اور قیمتی کتابوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ خلیفہ کو قالین میں لپیٹ کر لاتوں سے مار دیا گیا۔
مصر کی مملوک سلطنت
تیرہویں صدی کے عین وسط میں مصر میں ایوبی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور مملوک سلطنت کی بنیاد رکھ دی گئی اس سلطنت کو مملوک اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ ہندوستان کی خاندان غلاماں کی طرح یہاں بھی بیشتر حکمران بچپن یا لڑکپن میں غلام رہ چکے تھے۔ یہ سلطنت مصر، شام، فلسطین اور حجاز پر مشتمل تھی۔ مملوک سلطنت کا دارالخلافہ قاہرہ شہر تھا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں گھر بنانے کے لیے مملوکوں نے ماضی کے عباسی خلفاء کے اولاد کو تخت پر بٹھا دیا۔ یوں بیک وقت مسلمانوں کا خلیفہ اور ایک مملوک حکمران انتظام سلطنت چلانے کا کام سرانجام دیتے۔ خلیفہ کا عہدہ برائے نام ہوتا تھا جبکہ حقیقت میں اختیارات کا مالک مملوک سلطان ہوتا تھا۔
خلافتِ عثمانیہ کا قیام اور عروج
تیرہویں صدی کے آخری سال عثمان نامی ایک ترک نوجوان نے اپنی ایک چھوٹی سی ریاست قائم کی تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ آنے والے دور میں یہ ریاست دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط سلطنت بننے والی ہے۔ عثمانی بادشاہوں نے علاقوں کے بعد علاقے فتح کرنا شروع کیے، 1365 میں بلغاریا اور 1389 میں سربیا کو فتح کر دیا گیا ۔ سربیا کو فتح کرنے کی اس جنگ میں بادشاہ مراد اول بھی شہید ہوچکے۔ 1448 میں کوسوو کی دوسری جنگ میں پورے خطہ بلقان کو سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنایا گیا۔ 1453 میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے مشرقی رومی سلطنت (بازنطینی سلطنت) کا خاتمہ کر دیا۔ اس شہر کو پچھلے کئی صدیوں سے رومی سلطنت کے دارالحکومت اور عیسائیت کے مرکز ہونے کی وجہ سے عیسائیوں کے درمیان انتہائی اہمیت حاصل تھی۔ آخری بازنطینی بادشاہ کانسٹنٹائن جنگ کے دوران قتل ہوئے۔ دنیا کے سب سے بڑے کلیسا آیا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اور پھر یہ شہر بیسویں صدی تک سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت رہا۔

تیموری سلطنت
ازبکستان میں پیدا ہونے والے تیمور اپنے آپ کو چنگیز خان کا وارث کہتا تھا۔ اس کا ویژن منگول سلطنت کی بحالی تھی اور وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ تیمور اسلامی دنیا کا انتہائی متنازعہ، دلچسپ اور حیران کن کردار رہا ہے۔ اس کی حکومت 1370 میں چغتائی سلطنت پر قبضہ کرنے سے شروع ہوئی۔ اس نے اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور ریاستوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اس نے 1398 میں دلی کے حکمران ناصر الدین محمد تغلق کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کیا۔ 1402 میں عثمانی سلطان بایزید اول کو گرفتار کر دیا جو کہ قید کے دوران ہی انتقال کر گیا۔ اسی طرح اس نے مصر و شام کے مملوک سلطنت اور روس اور یورپ کے کئی علاقوں میں بھی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
حیران کن طور پر تیمور نے تقریباً اپنی تمام لڑائیاں (چند ایک کے علاوہ) مسلمانوں ہی کے خلاف لڑیں۔ اندازے کے مطابق اس نے ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگوں کا قتل عام کیا جو اس وقت دنیا کی آبادی کا پانچ فیصد بنتا تھا۔
تیموری سلطنت کا پہلا دارالخلافہ سمرقند رہا جسے بعد میں ہرات منتقل کیا گیا۔ اپنی عروج کے زمانے میں یہ سلطنت موجودہ ایران، افغانستان، وسطی ایشیا اور پاکستان کے کئی علاقوں پر مشتمل تھی۔ ایران میں یہ سلطنت 16ویں صدی تک قائم رہی۔
ہندوستان
ہندوستان میں اسلامی سلطنت کے بانی شہاب الدین غوری کے انتقال کے بعد 1206 میں ان کے جانشین اور غلام قطب الدین ایبک دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے۔ خاندان غلاماں کے نام سے مشہور ان بادشاہوں نے 1290 تک حکومت کی۔ جس کے بعد اقتدار ترک النسل افغان خلجی خاندان کو منتقل ہوئی۔ خاندان غلاماں اور خلجی دونوں خاندانوں کی کریڈٹ پر یہ بات موجود ہے کہ ان لوگوں نے کامیابی سے ہندوستان کو منگول طوفان سے بچائے رکھا۔ 1398 میں تیمور نے دہلی کو فتح کیا تو خضر خاں نامی شخص کو اپنا وائسرائے مقرر کیا اور سید خاندان کی حکومت شروع ہوئی۔ پندرہویں صدی کے عین وسط میں پختونوں کی لودھی خاندان کے بہلول لودھی بادشاہ بنے اور پھر اگلی صدی میں مغل حکومت کے قیام تک ہندوستان افغانوں کے زیر حکومت رہا۔
یورپ
علمی اور معاشی ترقی کے لحاظ سے یورپ ابھی تک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ 1337 سے 1453 تک برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہور صدسالہ جنگ لڑی گئی جس کے آخری معرکے میں یورپ میں پہلی مرتبہ توپ کا استعمال کیا گیا۔ 1455 میں برطانیہ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی تیس سال تک جاری رہی۔
اسپین میں مسلمانوں کی 800 سالہ حکمرانی آخرکار 1492 میں ختم ہوچکی۔ نئے عیسائی بادشاہ نے سپین سے یہودیوں کو نکالنے کا حکم دے دیا۔ اس ملک سے تعلق رکھنے والے مشہور سیاح کرسٹوفر کولمبس نے اس سال ہی امریکہ کو دریافت کیا۔ جس نے یورپی عوام کا امریکہ کے ساتھ ایک رابطہ استوار کیا۔ اسپین اور پرتگال یورپ کے دو ترقی یافتہ ممالک تھے اس لئے یہی دو اقوام سب سے پہلے امریکا پہنچے اور علاقوں کو قبضہ کرنے کی دوڑ میں لگ گئے ۔
دوسری طرف چودھویں اور پندرہویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ نے یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ پندرہویں صدی کے اواخر میں اٹلی میں خانہ جنگی شروع ہوئی جو اگلے 65 سال تک جاری رہی جس کی وجہ سے اٹلی کی شہری ریاستوں کا زوال شروع ہوا۔
جاری ہے ۔۔۔
دنیا کی تاریخ: چوتھا حصہ، آٹھویں صدی سے بارہویں صدی عیسوی تک
يہودیوں کی تاریخ کا سرسری جائزہ
دنیا میں جنگوں کی تاریخ، جنگوں کے اسباب و نتائج، سب سے تباہ کن جنگیں
Very informative very interesting sir
2 crore 96 lac Square miles of Mongol reign occupied land is something one can only imagine. Surely the article needs a little bit of proof reading
2 crore 40 Lacs sq km…not 2 crore 96 Lacs… secondly it is the km not the mile…
Thirdly search it out….if my written figure is incorrect I will make correct it with thanks to you.
Very informative sir ❤️❤️