مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)
پہلی صدی عیسوی کا سب سے اہم تاریخی کارنامہ عیسائیت کا دنیا میں ایک نئے مذہب کے طور پر متعارف ہونا تھا۔ قرآن مجید کے تیسرے پارے میں ایک واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے عمران نامی شخص کی اہلیہ نے اپنے پیٹ میں بچے کو خدا کی عبادت کے لئے وقف کرنے کا نذر رکھا۔ خاتون نے بچے کو جنم دیا تو وہ لڑکی تھی جن کا نام مریم رکھا گیا۔ مریم علیہ السلام اپنی جوانی تک پیغمبر خدا حضرت زکریا علیہ السلام کے زیرنگرانی بیت المقدس میں خدا کی عبادت میں مشغول رہی۔ مریم علیہ السلام نے خدا کی حکم سے بنا شوہر کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا۔ خدا نے عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نامی مقدس آسمانی کتاب نازل فرمائیں اور آج عیسائیت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ اسی صدی کے وسط میں برطانیہ کے موجوده دارالحکومت لندن شہر کا بنیاد رکھ دیا گیا تھا۔
پہلی صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی تک دنیا میں روم اور فارس کا سکہ چلتا رہا۔ دوسری صدی عیسوی سے رومن سلطنت کا عروج شروع ہوا۔ پانچ قابل اور اہل بادشاہوں کا یہ دور امن اور خوشحالی کا زمانہ تھا۔ یہ پانچ اچھے بادشاہ نروا، تریجن، ہیڈرین، انٹونی اور اوریلیس تھے، اور ان بادشاہوں کا زمانہ سن 96 سے 180 تک تھا۔ 66 عیسوی سے روم اور فارس کے درمیان ایک جنگ شروع ہوئی جو 161 عیسوی تک جاری رہی تھی۔ پھر 70 سال تک امن قائم رہا لیکن اس کے بعد ساسانیوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لینے کے لیے روم پر حملہ کر دیا۔ 260 میں شاہ پور اول کے دور میں رومی بادشاہ ویلیرین اول کو فارسیوں نے حراست میں لے لیا۔
روم میں عیسائیت کی آمد
ابتدا میں رومیوں کا عیسائیت مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چوتھی صدی عیسوی میں کانسٹنٹائن اول روم کے پہلے بادشاہ بنے جنہوں نے عیسائیت کو قبول کر لیا۔ یوں عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے اس کی خوب ترویج ہوئی۔ کانسٹنٹائن ہی وہ بادشاہ تھے جنہوں نے تاریخی شہر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی بنیاد رکھی اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ پھر یہی شہر تقریبا ایک ہزار سال تک رومی سلطنت کا دارالحکومت اور عیسائیت کا مرکز رہا۔ 395 عیسوی میں متحدہ رومی سلطنت کے آخری بادشاہ تھیوڈوسس کی وفات کے بعد رومی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو چکی۔ مغربی رومی سلطنت کا دارالحکومت روم شہر رہا جبکہ مشرقی روم کا دارالحکومت قسطنطنیہ شہر۔ 476 میں یہی مغربی رومی سلطنت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی اور یورپ کئی کمزور سلطنتوں میں تقسیم ہو چکا، جہاں فوجی جرنیل اپنے بادشاہ سے زیادہ طاقتور ہوتے تھے۔ اسی دور میں دوسری طرف وسطی امریکہ میں مایا تہذیب کا کلاسیکل دور شروع ہوا۔
چین
دوسری صدی عیسوی میں چین کی ہن سلطنت وسطی ایشیا تک پھیل چکی۔ اگلی صدی میں ہن خاندان سے اقتدار جن سلطنت کو منتقل ہوئی جنہوں نے پورے چینی قبائل کو متحد کر دیا۔ اس کے بعد ٹنگ خاندان سب سے کامیاب ثابت ہوا جنہوں نے وسطی ایشیا، چین اور کوریا تک کو اپنی سلطنت میں شامل کر دیا تھا۔ 691 میں چین نے بدھ مت کو سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا۔

ہندوستان
تیسری صدی عیسوی میں چندر گپتا نے موریا سلطنت کی بنیاد رکھی۔ چندرگپتا کے پوتے اشوکا ہندوستان کے پہلے بادشاہ بنے جنہوں نے پوری برصغیر پاک و ہند پر اپنی حکومت قائم کی۔ اشوکا نے بدھ مت مذہب قبول کر لیا اور سرکاری سرپرستی میں اس مذہب کا پرچار شروع کر دیا جس کی وجہ سے ہندوستان میں بدھ مت کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ اسی دور میں پاکستان کے موجودہ صوبہ خیبرپختونخوا میں گندھارا تہذیب اپنے عروج کو پہنچی ان لوگوں کا مذہب بدھ مت اور زبان سنسکرت تھی۔ چندر گپتا نے حکومت کشن قوم سے چھین لی تھی۔ یہ ایک خانہ بدوش قوم تھی۔ جنہوں نے دو مرتبہ آج کے پاکستان اور شمالی ہندوستان پر حکومت کی تھی۔
افریقہ
براعظم افریقہ جو مصری تہذیب کے زمانے میں ایک عروج دیکھ چکا تھا، اب صدیوں سے زوال کا شکار تھا۔ دوسری صدی عیسوی میں یہاں عیسائیت پہنچ چکی اور براعظم کے کئی علاقے رومیوں کے قبضہ میں آچکے۔ ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد اور ترویج ہوئی تو عیسائیت اور اسلام یہاں کے دو بڑے اور ہم پلّہ مذاہب بن چکے۔
جاپان
جاپان میں تیسری صدی سے چھٹی صدی عیسوی تک کے دور کو “کوفون دور” کہا جاتا ہے اس دور کی تاریخ چونکہ لکھ کر محفوظ نہیں ہوا۔ یوں مورخین نے آثار قدیمہ سے زمانے کے اہم واقعات کا اندازہ لگایا ہے۔ اس دور کی قابل ذکر بات جاپان میں بدھ مت کی تبلیغ و ترویج تھی۔
سرزمین عرب

تاریخی لحاظ سے عرب دنیا سلطنت فارس کا حصہ رہا تھا۔ 571 میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عرب کے مرکزی شہر مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی، جوانی میں صادق و امین کے نام سے مشہور محمد بن عبداللہ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت کے اعلی مرتبے پر فائز کیا گیا تو ابتدا کے چند سالوں میں پیغمبر خدا اور ان کی صحابہ کی مختصر جماعت کو کافر اور جاہل عربوں کی طرف سے انتہائی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا مگر 619 میں فتح مکہ کے ساتھ ہی مسلمانوں کے عروج کا زمانہ شروع ہوا۔ اگر ہم ساتویں صدی کو عربوں کے عروج اور فارسیوں کے زوال کی صدی کا نام دے دیں تو غلط نہ ہوگا۔
خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں 636 کو جنگ قادسیہ میں مسلمانوں نے سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں فارس کے فوج کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کر دیا۔ دو سال بعد فلسطین کو فتح کرکے یہودیوں سے بیت المقدس کی چابیاں حاصل کرلی گئی۔ 639 میں مصر اور آرمینیا کو فتح کر دیا گیا۔ دوسری طرف رومی سلطنت کے خلاف جہاد کا آغاز کر دیا گیا اور ان سے شام کا انتہائی اہم صوبہ چھین لیا گیا۔
چوتھے خلیفہ علی مرتضی کے دور میں 656 عیسوی میں مسلمانوں کے درمیان پہلی خانہ جنگی لڑی گئی۔ جس میں ایک دھڑے کی قیادت خلیفہ علی بن ابوطالب کر رہے تھے تو دوسرے کی قیادت معاویہ بن ابوسفیان کر رہے تھے۔ 661 عیسوی میں علی رضی اللہ تعالی عنہ کی موت کے ساتھ ہی خلفائے راشدین کا تقریبا تیس سالہ دور اختتام کو پہنچا۔ جن کو احادیث میں بہترین زمانہ قرار دے دیا گیا تھا۔

معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ بننے سے بادشاہت نما خلافت کا آغاز ہوا جسے خلافت بنو امیہ کہا جاتا ہے۔ اسلامی ریاست کا دارالحکومت مدینہ سے دمشق منتقل کیا گیا۔ یاد رہے کہ اسی دور میں بھی خلفائے راشدین کے زمانے کی طرح فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور عمر فاروق کے 22 لاکھ مربع میل پر محیط اسلامی ریاست معاویہ کے دور میں 63 لاکھ مربع میل پر محیط ہو چکی تھی۔ 670 میں مسلمانوں نے عقبہ بن نافع کی قیادت میں پوری شمالی افریقہ پر اسلام کا پرچم لہرایا۔ 674 عیسوی میں مسلمانوں نے پہلی مرتبہ قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا مگر ناکام رہیں۔ 680 کو یزید کی بادشاہی میں کربلا کا بدقسمت واقعہ پیش آیا اور دوسری مرتبہ اسلامی ریاست خانہ جنگی کی شکار ہو چکی۔
دنیا کی تاریخ : آئیے دنیا کی تاریخ کے بارے میں چند حقائق جانے
دنیا کی تاریخ، دوسرا حصہ، 5000 قبل مسیح سے سن عیسوی کے آغاز تک
يہودیوں کی تاریخ کا سرسری جائزہ
Great information for us💐
What’s about your age 😉 waam deer zorr saray ye
ها ها ، او زوړ خو يم