مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )
یہ دنیا کب وجود میں آئی
ظاہر سی بات ہے کہ جب تک دنیا میں لکھنے کا فن اور رواج فروغ نہیں پاچکا تھا اس وقت تک تاریخ لکھنے کا سلسلہ کیسے شروع ہو سکتا تھا۔ اب تاریخ لکھنے سے پہلے کے زمانے کے بارے میں جو کچھ بھی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے وہ یا تو مورخین اور سائنس دانوں کے اندازے ہیں اور یا چاروں آسمانی کتابوں سے حاصل شدہ علم۔ دنیا کی تاریخ کے بارے میں غور کرنے سے جو پہلا سوال ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کائنات اور زمین کب وجود میں آئی۔ سائنسدان اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ اربوں سال پہلے یا کم ازکم کروڑوں سال پہلے یعنی کہ ٹھیک جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا زمین پر انسانوں کی آباد ہونے سے پہلے کوئی دوسری مخلوق آباد تھیں تو ہمارے مذہب اسلام کے مطابق انسانوں سے پہلے زمین پر جنات آباد تھے اور جنات سے پہلے “بلائیں”۔ جی ہاں۔ یہ بلائیں شریر روحوں پر مبنی مخلوق تھی جو صرف شر کے کاموں میں مصروف رہتی۔ خدا نے ان کو ختم کرنے کے لیے جنات بھیجے اور جنات نے ان کا خاتمہ کیا۔
انسان کب پیدا ہوئے
وکی پیڈیا کے مطابق پچاس ہزار سال قبل افریقا میں پہلی مرتبہ انسان آباد ہوئے اور یہاں سے مشرق وسطیٰ اور یورپ میں پھیل گئے۔ سائنس میں ڈارون تھیوری پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ انسان بندروں کی ترقی یافتہ اور جدید شکل ہے یعنی کہ انسان پہلے بندر تھے۔ تینوں آسمانی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کے مطابق نسل انسانی کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام سے شروع ہوا ہے۔ اب آدم علیہ السلام کو کب زمین پر اتارا گیا تو جواب ہے 12 سے 15 ہزار سال قبل ۔

دنیا کی پہلی زبان
یہاں یہ سوال بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے کون سی زبان لے کر آئے۔ یعنی کی دنیا کے کی پہلی زبان کونسی تھی۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ آدم علیہ السلام کی زبان عربی ہوتی ہوگی۔ کیونکہ یہ قرآن کی زبان ہے اور یہی ہی جنت کی زبان ہوگی۔ مگر اگر یہ قرآن کی زبان ہے تو خدا کی دیگر کتابوں تورات کی زبان عبرانی اور انجیل کی زبان سریانی تھی۔ تو پھر وہ کیوں آدم علیہ السلام کی زبان نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح آدم علیہ السلام سے ہزاروں سال بعد پیدا ہونے والی قوم عاد دنیا کی پہلی قوم تھی جن کی زبان عربی تھی۔
انسان تین رنگی کیوں؟
اب جس طرح دنیا کے تمام انسانوں کا باپ آدم علیہ السلام ہے عین اسی طرح آج کی دنیا میں موجود تمام انسان نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ وہ ایسے کہ جب طوفان نوح کے ذریعے خدا نے تمام کافروں کو ہلاک کر دیا اور جو 80-83 مسلمان نجات پا چکے۔ ان میں سے نسل انسانی کا سلسلہ نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث سے شروع ہوا۔ گندمی رنگ والے (عرب، وسطی ایشیائی، ہندوستانی، فارسی اور ترک) سام کی اولاد ہیں۔ کالے رنگ والے (افریقی) حام کی اولاد ہیں جبکہ گورے رنگ والے (یورپی، مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی یعنی جاپانی، چینی، کوریائی۔۔۔ اور یاجوج ماجوج) یافث کی اولاد میں سے ہیں۔
دس ہزار سال قبل مسیح سے لے کر پانچ ہزار سال قبل مسیح تک

مورخین کے مطابق 10 ہزار سال قبل مسیح یعنی آج سے بارہ ہزار سال پہلے دنیا کی آبادی دس لاکھ سے زائد تھی۔ اس دور میں مشرق وسطیٰ میں تانبے کے ذخائر دریافت ہوئے۔ عراق میں بھیڑوں کو پالنے کا رواج شروع ہوا۔ ایک ہزار سال بعد یورپ میں بھی لوگ آباد ہو چکے۔ سات ہزار سال قبل مسیح میں برتنوں کا استعمال شروع کیا گیا۔ کتے اور گائے پالنے کی داغ بیل ڈالی گئی۔ تانبے اور سونے کے زیورات بنانے کا فن اور رواج عام ہوا اور ہندوستان میں موجودہ بلوچستان کے علاقے میں مہرگڑھ کے نام سے پہلی انسانی آبادی قائم ہوچکی۔
دنیا کے پہلے تہذیب
اگر ہم آسان لفظوں میں تہذیب کی تعریف کریں تو وہ یہ ہے کہ جب انسانوں نے جنگلوں سے نکل کر گاؤں اور شہر آباد کیے یعنی کہ جب انسانوں نے انسانوں کے شایان شان مہذب طرز زندگی اختیار کرلی۔ تو کیا انسان جنگل میں بھی رہیں اور ان کی زندگی جانوروں سے مشابہت رکھتی تھی؟ جی بالکل۔ مثلاً جب تک دنیا میں آگ دریافت نہیں ہوچکی تھی اس وقت تک کھانا پکانے کا فن اور رواج بھی موجود نہیں تھا تو انسان بھی جانوروں کی طرح کچی چیزیں کھانے پر مجبور تھے یا یہ کہ جب تک انسان کپڑے سینے کا فن سیکھ نہیں چکے تھے اس وقت تک انسان بھی برہنہ رہ رہے تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ عقل و شعور کی نعمت کی وجہ سے انسانوں میں حیا موجود تھی اور وہ پیڑوں کے پتوں وغیرہ کے ذریعے اپنی عورت کو چھپاتے رہتے تھے۔

اچھا تو ہم بات کر رہے تھے تہذیب کی۔ تو دنیا کی پہلی تہذیب میسوپوٹامیہ (موجودہ عراق) کی تہذیب تھی یعنی کہ دریائے دجلہ اور فرات کے کنارے دنیا میں پہلی مرتبہ گاؤں اور شہر آباد ہوچکے تھے۔ دوسری تہذیب مصری تہذیب یا دریائے نیل کی تہذیب کہلاتی ہے۔ ترقی میں یہ تہذیب گزشتہ تہذیب سے بہت آگے نکل چکی تھی۔ اس وجہ سے بہت سے لوگ اسے ہی پہلی تہذیب پکارتے ہیں۔ مصر میں اس زمانے میں میلے لگتے، مختلف تہوار منائے جاتے، تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے جاتے اور وہی ڈرامے اسٹیج پر پرفارم کئے جاتے۔ دوسری طرف مہر گڑھ سے شروع ہونے والی وادی سندھ کی تہذیب ترقی میں سب سے بازی لے گیا اور 10 لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیل چکا۔ جو موجودہ افغانستان پاکستان اور ہندوستان کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ موہنجوداڑو رقبہ، آبادی اور ترقی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شہر بن چکا تھا۔ آج سے پانچ ہزار سال قبل یہ شہر گھروں سے گلی کوچوں اور نکاسی آب کے نظام تک پورا پختہ اینٹوں اور پتھروں سے آباد تھا۔ اکثر گھر اور دکانیں دو منزلہ تھیں۔ گرمی سے بچاؤ کے لیے تہہ خانے قائم کیے گئے تھے۔
اس دور کے اختتام (پانچ ہزار سال قبل مسیح) تک عراق میں آبپاشی کی شروعات ہو چکی تھی۔ زراعت میں جانوروں سے کام لینا عام ہوچکا تھا۔ چین میں چاول اور میکسیکو میں مکئی کی پیداوار شروع ہو چکی تھی۔ ہندوستان اور مصر میں پہیہ ایجاد ہوکر مستعمل تھا اور دنیا کی آبادی 70 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔
جاری ہے۔۔۔
دنیا کی تاریخ، دوسرا حصہ، 5000 قبل مسیح سے سن عیسوی کے آغاز تک
دنیا میں جنگوں کی تاریخ، جنگوں کے اسباب و نتائج، سب سے تباہ کن جنگیں
Amazing information
بہترین صیبہ
Nice
Very informative
Amazing
Pingback: دنیا کی تاریخ، دوسرا حصہ، 5000 قبل مسیح سے سن عیسوی کے آغاز تک – Aamir Zaheer
Nice