مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )
دنیا میں جنگ ہمیشہ سے دلچسپ موضوع بحث رہا ہے، بیسویں صدی میں جنگ کی ہیئت تبدیل ہوئی۔ جب پہلی اور دوسری جنگ عظیم لڑی گئی، جنگ میں جوہری بم کا استعمال ہوا، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار ایجاد ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے سو سال میں جنگوں پر لاتعداد کتابیں لکھی گئیں۔ جنگوں کی تاریخ کے حوالے سے اگر ہم بات کرے تو قابیل کے ہاتھوں ہابیل کی ہلاکت دنیا کی پہلی قتل تھی جو دو افراد کے درمیان جنگ تھی۔ رفتہ رفتہ خاندانوں اور قبائل کے درمیان جنگیں شروع ہوئی۔ جب سلطنتیں وجود میں آئیں تو ان سلطنتوں یعنی افواج کے درمیان جنگوں کا آغاز ہوا۔
جنگ کے اسباب
اگر ہم زمانہ قدیم سے لے کر آج تک جنگوں کے اسباب پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حسد، انا، جہالت، زمین، عورت، دولت اور طاقت کے حصول ہی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی جنگ معاشرے کی فلاح، مسئلے کی حل یا شر کے خاتمے کے لیے بھی لڑی جا چکی ہوں مگر بادی النظر میں جنگ ایک تخریبی عمل ہے جو تباہی و بربادی لاتا ہے۔

اب تک کتنی جنگیں لڑی جا چکی ہیں
مورخین کے مطابق گذشتہ پانچ یا ساڑھے پانچ ہزار سال کی تاریخ میں دنیا میں 14500 جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ جس میں بالواسطہ اور بلاواسطہ تقریبا ساڑھے تین ارب لوگ یعنی آج کے حساب کے مطابق دنیا کی نصف آبادی تک لوگ مر چکے ہیں۔ بالواسطہ کا مطلب یہ ہے کہ ان جنگوں کی وجہ سے جو قحط آئیں یا جو بیماریاں اور وبائیں پھیل چکی ان کی وجہ سے بھی اتنے ہی لوگ مر چکے ہیں جتنے کے جنگوں میں۔ اس پورے عرصے میں صرف 300 سال امن سے گزریں ہیں۔
دنیا کی پہلی جنگ کب لڑی گئی
اس سوال کے جواب کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں کھدائی کے دوران 10 ہزار قبل مسیح کے ڈھانچے نکل آئے ہیں۔ ماہرین نے ان پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان ڈھانچوں پر تشدد کے آثار تھے یعنی کہ یہ لوگ جنگوں کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ اگر یہ بات ٹھیک ہے تو پھر تو پہلی جنگ آج سے بارہ ہزار سال قبل ہی لڑی جا چکی ہے۔ دوسری جگہ مورخین کہتے ہیں کہ میسوپوٹامیا (آج کے عراق) میں 2700 قبل مسیح میں سمر اور ایلام قبائل کے درمیان جنگ دنیا کی پہلی جنگ تھی۔ جب کہ دنیا کی پہلی لشکر، کش کے بادشاہ نے 3500 قبل مسیح میں تیار کی تھی. تیسری رائے کے مطابق 1300 قبل مسیح میں یونانیوں اور اناطولیہ (موجودہ ترکی) کے درمیان جنگ، جو تروجن جنگ کے نام سے مشہور ہے، دنیا کی پہلی جنگ تھی۔
اموات کے لحاظ سے دنیا کی تباہ کن جنگیں
ذیل میں دنیا کے جن بارہ تباہ کن جنگوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں سے ہر جنگ میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ قتل ہوئے ہیں ان جنگوں میں فوجی سپاہیوں سے زیادہ شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے ان بارہ جنگوں میں پانچ چین میں، دو یورپ میں، ایک افریقہ میں اور دو پوری دنیا میں (دونوں جنگ عظیم) لڑی جا چکی ہیں۔ اس میں ایک 23 سالہ جنگ مذہبی جنگ تھی، باقی تمام سیاسی نوعیت کی تھیں جو مختلف ممالک کے درمیان یا کسی ملک کے اندر بغاوت اور خانہ جنگی سے متعلق تھیں۔

ایک : کانگو جنگ ماضی قریب میں 1998 سے 2003 تک لڑی گئی۔ اس پانچ سالہ جنگ میں تقریبا 54 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔
دو : انیسویں صدی کے اوائل میں فرانس کے نیپولیئن بونا پارٹ اور یورپ کے دوسرے ممالک کے درمیان جو جنگ لڑی گئی اس نے 35 سے 60 لاکھ تک لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔
تین : عیسائیوں کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے کے درمیان سترہویں صدی کے دوران یورپ میں جنگ لڑی گئی جس کو تیس سالہ جنگ بھی کہتے ہیں اس جنگ میں 80 لاکھ لوگ قتل ہوئے تھے۔
چار : 1927 سے 1949 تک چینی خانہ جنگی میں ایک کروڑ تک لوگ جان سے گئے۔
پانچ : بیسویں صدی میں روس میں کمیونسٹ انقلاب کے دوران انقلابی حکومت کے ہاتھوں 80 لاکھ سے ایک کروڑ تک لوگ مارے گئے تھے۔
چھ : انیسویں صدی کے چین میں چینی مسلمانوں اور ایک چینی نسلی گروہ کے درمیان جنگ میں دو کروڑ لوگ جنگ کی ایندھن بن چکے تھے۔
سات : آٹھویں صدی عیسوی میں چین کے اندر ایک بغاوت کے نتیجے میں ایسی جنگ لڑی جاچکی تھی جس میں چین کی دو تہائی آبادی کم ہوئی تھی، ٹوٹل اموات 3 کروڑ 60 لاکھ تھیں۔
آٹھ : پہلی جنگ عظیم کے دوران دو سے چار کروڑ لوگ قتل ہوئے تھے۔

نو : انیسویں صدی کے وسط میں چین میں تائپن بغاوت کے نتیجے میں قنگ سلطنت اور عیسائیوں کی جنگ نے دو سے تین کروڑ لوگوں کی جان لے لی تھیں۔
دس : سترہویں صدی کے چین میں اقتدار کی خاطر قنگ اور منگ خاندانوں کے درمیان جنگ میں ڈھائی کروڑ افراد مارے جا چکے تھے۔
گیارہ : دوسری چین جاپان جنگ (1939-45) میں تین کروڑ لوگ قتل ہوئے تھے جن میں ڈھائی کروڑ معصوم شہری تھے۔
بارہ : دوسری جنگ عظیم آج تک ہونے والے جنگوں میں سب سے تباہ کن ثابت ہوئی ہے جس میں سات سے آٹھ کروڑ تک لوگ اس دنیا سے فنا ہوئے تھے۔
منگول آندھی
آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں کئی بادشاہ ایسے گزرے ہیں جن کی پہچان جنگ اور ظلم تھی جن میں چنگیز خان، ہلاکو خان اور بادشاہ تیمور لنگ کے نام قابل ذکر ہیں۔ 1206 سے 1368 تک تقریبا ڈیڑھ سو سال کے اس عرصہ میں منگول بادشاہوں کے ظلم و ستم نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ لوگ جہاں بھی جاتے کسی کی جان کو نہیں بخشتے اور انسانی کھوپڑیوں کی مینار بناتے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق ان لوگوں نے اس عرصہ میں تین سے چار کروڑ لوگوں کا قتل عام کیا ہے۔ تیمور لنگ کے ہاتھوں اسی لاکھ لوگوں کی قتل عام اس میں شامل نہیں ہے۔ تیمور اگر چہ مسلمان تھا لیکن اس کے ہاتھوں اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہوئی تھی۔
سامراجیت کی تباہی
یورپ میں تاریک دور کے خاتمے کے بعد سولہویں صدی میں سپین پہلی یورپی طاقت تھی جس نے باہر کی دنیا میں کئی ممالک پر قبضہ کرکے اپنی کالونیاں بنائی تھیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسپین نے قبضے کی اس جنگوں میں ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو قتل کیا تھا۔ بعد میں یہی راستہ دیگر یورپی طاقتوں ہالینڈ، پرتگال، فرانس اور برطانیہ نے بھی اختیار کیا تھا۔ اندازہ آپ خود لگا لیں کہ سپر پاور کا خطاب لینے کے لیے آج تک دنیا میں ان طاقتور ممالک نے کتنے انسانوں کو قتل کیا ہوگا.
دنیا کی تاریخ : آئیے دنیا کی تاریخ کے بارے میں چند حقائق جانے
دنیا کی تاریخ، دوسرا حصہ، 5000 قبل مسیح سے سن عیسوی کے آغاز تک
Informative
That’s impressive bhts acha lika hai
Useful and helpful article
A 2
Pingback: دنیا کی تاریخ: پانچواں حصہ؛ تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی عیسوی تک – Aamir Zaheer