مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
عموماً یہ خیال کیا جاتا تھا اور ہے کہ سائنسی اور علمی ترقی کی وجہ سے دنیا بہت جلد بیماریوں ، جہالت ، غربت ، نا انصافی اور عدم مساوات سے چھٹکارا پا کر امن ، علم اور خوشحالی کا گہوارہ بن جائے گا یعنی کہ آنے والا وقت موجودہ وقت سے اچھا ہو گا مگر یہ مفروضہ غلط ثابت ہو رہا ہے اور پچھلی صدی کی طرح موجودہ صدی بھی جنگوں اور ظلم و جبر کی گرفت میں ہے امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملے کئی طویل جنگوں کا پیش خیمہ بنے ۔
نائن الیون
گیارہ ستمبر 2001 کو القاعدہ (ایک مسلم عسکریت پسند تنظیم) کی جانب سے ائیرپورٹ سے طیاروں کو ہائی جیک کرکے امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملے کیے گئے ۔ ان حملوں سے ایک طرف تو سپر پاور کی مضبوط دفاع کا پول کھل گیا اور دوسری طرف دنیا کو القاعدہ کی طاقت کا اندازہ ہوا ۔ ردعمل کے طور پر امریکہ نے کابل میں طالبان حکومت سے القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا جسے طالبان کی طرف سے مسترد کر دیا گیا اور پھر بیس سال تک طالبان کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی گئی جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا ، لاکھوں معصوم شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکا جن طالبان کے خاتمے کے لیے یہاں آیا تھا 2020 میں انہی طالبان کو اقتدار دے کر چلتا ہوا ۔ اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جنگ کے ابتدا میں امریکا دنیا کا اکلوتا سپرپاور تھا جو جنگ کے اختتام پر اکلوتا نہ رہا ۔

امریکہ اور مشرق وسطیٰ
امریکہ نے صرف افغانستان پر بس نہیں کیا بلکہ 2003 میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجود ہونے کے بہانے صدام حکومت کو ختم کرنے کے لیے عراق پر حملہ کیا ۔ یہ جنگ بھی آٹھ سال تک لڑی گئی ، کیمیائی ہتھیار تو نہ مل سکے البتہ صدام حسین سمیت لاکھوں لوگوں کی قتل عام کے بعد عراق کو ایسے حالت میں چھوڑ دیا گیا کہ وہ آج تک نہ سنبھل سکا ۔
عراق جنگ کے ساتھ ساتھ امریکہ یمن ، صومالیہ اور کینیا میں ڈرون حملوں کے ذریعے اپنے اہداف کو نشانہ بناتا گیا ۔ 2011 میں نیٹو کے ذریعے لیبیا کے صدر معمر قذافی کو ایک فضائی حملے میں نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا اور آج لیبیا کے عوام قذافی کے دور کو یاد کر کے خون کے آنسو رو رہے ہیں کیونکہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک پچھلے بارہ سال سے خانہ جنگی کا شکار ہے ۔
عالمی مالیاتی بحران
پچھلی صدی میں 1929 میں ایک مالیاتی بحران آیا تھا اب 2008 میں امریکہ سے شروع ہونے والے اس قسم کی ایک اور بحران نے دنیا کو اس طرح لپیٹ میں لے لیا کہ سینکڑوں ہزاروں کمپنیاں دیوالیہ ہو چکیں، لاکھوں کروڑوں لوگ نوکریاں کھو بیٹھے جبکہ مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ دنیا کو اس بحران سے نکلنے میں کئی سال لگے ۔
عرب سپرنگ
دو ہزار گیارہ میں مشرق وسطیٰ کے اندر سے شروع ہونے والا یہ تحریک “عرب بہار” کے نام سے مشہور ہوا یہ دراصل دہائیوں سے تخت پر بیٹھے آمر اور بادشاہوں کے خلاف پرزور عوامی ردعمل تھا جس کے نتیجے میں تیونس ، مصر ، لیبیا ، شام اور یمن وغیرہ میں انقلابی صورتحال پیدا ہوئی ۔ کئی ممالک میں لوگ ان آمروں کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن اس تحریک کی بطن سے شام میں ایک طویل بین الاقوامی جنگ ( صدر بشارالاسد کی حمایت اور مخالفت میں ) ، یمن میں سعودی ایران جنگ ، لیبیا میں خانہ جنگی اور مصر میں فوجی آمر جنرل سیسی کی حکومت پیدا ہوئیں یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق عرب بہار کی خوشبو بہت جلد بدبو میں تبدیل ہوگئی ۔
کووڈ 19
چین سے پوری دنیا میں پھیلنے والی کورونا وبا ایک طرف لاکھوں لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنی تو دوسری طرف دنیا لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر 2008 کے مالیاتی بحران کی طرح ایک اور بحران کا شکار ہوئی ۔

یورپ
موجودہ صدی پچھلی صدی کے مقابلے میں یورپ کے لیے نیک شگون ثابت نہیں ہوئی کیونکہ یورپ مکمل طور پر ایک دباؤ میں ہے ۔ پورا یورپی یونین موجودہ روس یوکرین جنگ میں ایک بے بس تماشائی کا کردار بن چکا ہے ۔ یورپی ممالک کی خارجہ پالیسی تو پچھلی صدی میں امریکا کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی مگر اب امریکہ کی طاقت میں واضح کمی آنے کی وجہ سے یورپ امریکہ ، روس اور چین کے درمیان بیلنس قائم رکھنے کے سلسلے میں ایک عجیب کشمکش کا شکار ہے ۔ اسی حالت میں بریگزیٹ کا واقعہ ( برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنا ) اس مالدار براعظم کے لیے ایک الگ دھچکا ثابت ہوا ۔
ایشیا کی صدی
روس ایک مرتبہ پھر عالمی طاقت کے طور پر سامنے آ چکا ہے جبکہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے ساتھ ساتھ کئی محاذوں پر امریکہ سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے ۔ یہ دونوں ممالک مغرب کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں جبکہ ہندوستان تین بڑوں ( امریکہ ، روس اور چین ) کے بعد دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے طور پر سامنے آیا ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی ماہرین موجودہ صدی کو ایشیا کی صدی کا نام دے رہے ہیں ۔
کیا اچھا کیا برا
ڈیجیٹل انقلاب
اس صدی کی تیز ترین سائنسی ترقی خصوصا ڈیجیٹل انقلاب نے دنیا کو ہماری سوچ سے زیادہ تبدیل کر دیا ۔سوشل میڈیا نے کمزور اور نظرانداز طبقے کو ایک مضبوط سٹیک ہولڈر بنا دیا جسے نظرانداز کرنا اب ناممکن ہے ۔ مصنوعی ذہانت نے گھنٹوں کا کام منٹوں میں کرنے کی آسانی پیدا کر دی ۔ لاکھوں کروڑوں لوگ گھر میں بیٹھے بیٹھے آن لائن سکلز کے ذریعے خطیر رقم کما رہے ہیں ۔ انوویشن اور انٹرپرینیورشپ نے کاروبار کی دنیا کو ایک الگ رنگ دے دیا ہے ۔ دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی اور تنوع میں مزید اضافہ ہوا ۔

کیا سب کچھ ٹھیک ہے
تیز ترین سائنسی ترقی ، گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹل انقلاب نے دنیا کو بہت سے خطرناک مسائل کا شکار کر دیا جس میں سب سے اہم موسمیاتی تبدیلی ہے ۔ بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے موسم کا پیٹرن تبدیل کر دیا ہے بہت زیادہ بارشیں اور سیلاب ، طویل خشک سالی اور سمندری و برفانی طوفانوں کی وجہ سے دنیا ایک غذائی بحران کے دہانے پر ہے جو بیشتر ممالک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار اختیار کر گئی ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے صحت کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ان تمام مسائل بشمول جنگوں کے غربت ، جہالت اور بیماریوں میں کمی کے بجائے مزید اضافہ دنیا کے با اختیاروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔
اسلامی فلسفہ کے نمایاں خصوصیات ، آئیے اسلامی فلسفہ کو جاننے کی کوشش کریں ۔
دنيا کی تاریخ ، آٹھواں حصہ: بیسویں صدی پر ایک نظر
آج کی دنیا میں سافٹ سکلز کی اہمیت