دنيا کی تاریخ ، آٹھواں حصہ: بیسویں صدی پر ایک نظر

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

بیسویں صدی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ایک ڈرامائی منظر نامہ پیش کرتا ہے جس میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں، خلائی مسابقت کے دور کا آغاز ہوا، انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا، ایٹم بم بنائے گئے ، آدھی دنیا میں کمیونزم نافذ ہوا، عالمی طاقت روس نے عروج کے بعد زوال دیکھا ، آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین زوال کی طویل دور کے بعد عروج کے راستے پر چل پڑا، ڈی کالونائزیشن کے نتیجے میں ہندوستان ، پاکستان سمیت درجنوں نئے ممالک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے، یورپ امریکہ کے زیر اثر چلا گیا ، اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی تنظیمیں قائم کی گئی اور کمپیوٹر و انٹرنیٹ آنے کے ساتھ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوئی ۔

اہم واقعات پر ایک نظر

دو عالمی جنگیں

بیسویں صدی کا پہلا نصف یورپی طاقتوں کے عروج کا زمانہ تھا ۔ دونوں عالمی جنگیں دراصل ان طاقتوں کے درمیان اپنے آپ کو دنیا کے تھانیدار ثابت کرنے کی ایک تباہ کن کوشش تھی ۔ پہلی جنگ عظیم 1914 سے 1918 اور دوسری 1939 سے 1945 تک لڑی گئی ۔ پہلی جنگ عظیم میں دو سے تین کروڑ جبکہ دوسری میں 8 کروڑ سے زائد لوگ مر چکے ۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرائے جس سے جاپان کی بدمعاشی کا زمانہ ختم اور امریکا کی بدمعاشی کا زمانہ شروع ہو چکا ۔ یورپ معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا اور امریکہ کے مارشل پلان (اقتصادی امداد) کے رحم وکرم پر چلا گیا ۔ روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ شروع ہو چکی جو سویت یونین کے بکھرنے تک جاری رہی ۔ اس جنگ کی وجہ سے دنیا کثیر قطبی سے دو قطبی بن چکی جب روس اور امریکا سپر پاور کے طور پر سامنے آئے ۔ جرمنی کو برلن وال کے ذریعے روس اور مغرب کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

عالمی تنظیمیں

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر 1921 میں لیگ آف نیشن کے نام سے ایک عالمی تنظیم قائم کی گئی جس کا مقصد دنیا کو ایک اور تباہ کن جنگ سے بچانا تھا مگر جونہی دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی یہ تنظیم اپنی ناکامی کے بوجھ تلے دب کر مر چکی ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے نام سے 1945 میں ایک اور عالمی تنظیم قائم کی گئی جس کا ہیڈکوارٹر نیو یارک میں قائم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ یورپی یونین، عرب لیگ ، آسیان اور او آئی سی جیسی کئی تنظیمیں بھی وجود میں آ چکیں ۔

سرد جنگ

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ جب روس اور امریکا مخالف عالمی طاقتوں کی صورت میں سامنے آ چکے تو دونوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہوئی جو 1945 سے 1991 تک جاری رہی ۔ سرد جنگ سے مراد وہ جنگ ہوتی ہے جس میں طرفین ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں نہیں کودتے لیکن ایک دوسرے کو ختم کرنے کا کوئی موقع بھی ضائع نہیں کرنے دیتے ۔ امریکہ نے یورپ اور اپنے دیگر اتحادیوں کے ہمراہ روس کو گھیرنے کے لیے نیٹو کے نام سے فوجی اتحاد قائم کیا ۔ جواباً روس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر وارسا معاہدہ کیا ۔ 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا ۔ امریکہ نے یہ موقع غنیمت جان کر پاکستان کی مدد سے دس سالہ جنگ کے دوران روس کو شکست سے دو چار کر دیا ۔ یہی جنگ سوویت یونین کے خاتمے کا سبب بنا اور 1991 میں 14 ممالک روسی قبضہ سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ۔

کمیونزم کا پھیلاؤ

1917 میں روس اور 1949 میں چین میں کمیونزم کا نظریہ عملی شکل میں نافذ کیا گیا ۔ دونوں ممالک میں کمیونزم مخالف کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور پھر روس کی جانب سے کمیونزم کو عقیدہ کی شکل دے کر اس کا تبلیغ کرکے اسے آدھی دنیا تک پھیلایا گیا ۔ دراصل سرد جنگ کمیونزم اور کیپٹلزم کے درمیان ایک نظریاتی جنگ تھی ۔

امریکہ

پچھلی صدی میں امریکہ نے عالمی سیاست سے اپنے آپ کو الگ کیے رکھا تھا اس صدی میں اگر چہ امریکا ابتدا میں دونوں عالمی جنگوں میں شامل نہیں رہا مگر بعد میں شامل ہوا خصوصاً دوسری عالمی جنگ کے موقع پر جب جاپان نے امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملہ کیا تو امریکہ جنگ میں کود پڑا اور پھر جاپان پر ایٹم بم برسا کے دنیا پر اپنا وحشت طاری کیا ۔ یہیں سے امریکہ کے عروج کا زمانہ شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی امریکہ کے گھر کی لونڈی بن چکی ۔ سرد جنگ کا نتیجہ امریکہ کے حق میں نکلا تو یہ ملک دنیا کی واحد عالمی طاقت بن چکی اور 1991 میں صدر بش نے نیو ورلڈ آرڈر پیش کیا۔

خلافت عثمانیہ کا خاتمہ

دراصل سلطنت عثمانیہ کا زوال پچھلی صدی سے شروع ہو چکا تھا اور یورپی طاقتیں اسے یورپ کا مرد بیمار کہلاتے تھے ۔ خلافت کی جانب سے پہلی جنگ عظیم میں محوری طاقتوں کا ساتھ دینا ان کے لیے مہنگا سودا ثابت ہوا اور شکست کی صورت میں اتحادیوں نے خلافت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور پھر یہی منصوبہ 1924 میں کامیاب ہوا جب ترکی کے مصطفی کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کرکے ملک میں جمہوریت نافذ کیا۔ خلافت نے مسلمانوں کو ایک مرکزیت فراہم کی ہوئی تھی جو اب ختم کر دی گئی ۔

یورپ میں آمریت

یورپ کے اندر اٹلی میں 1922 میں مسولینی نے فاشزم کی شکل میں آمریت قائم کی ۔ 1933 میں مسولینی سے متاثر ایڈولف ہٹلر نے جرمنی میں نازی ازم کی شکل میں فسطائیت کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح اسپین میں بھی جنرل فرانسیسکو فرانکو نے یہی راستہ اختیار کیا ۔ مسولینی اور ہٹلر ہی دوسری جنگ عظیم کے اصل کردار تھے ۔

ہولوکاسٹ

ہولوکاسٹ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن حکمران ایڈولف ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کی قتل عام کو کہا جاتا ہے ۔ یہودیوں کے مطابق ساٹھ لاکھ یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا جبکہ کئی دیگر ذرائع کے مطابق اگر چہ بڑے پیمانے پر یہودیوں کی قتل عام ہوئی تھی مگر ساٹھ لاکھ کا ہندسہ مبالغہ آمیز ہے ۔

نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ

دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، اٹلی اور اسپین اب عالمی طاقتیں نہیں رہیں ۔ یہ ممالک معاشی لحاظ سے اب اس قابل نہ رہے کہ اپنے زیر قبضہ ایشیائی ، افریقی اور جنوبی امریکی ریاستوں پر اپنا قبضہ قائم رکھ سکے ۔ یوں درجنوں ممالک نے آزادی حاصل کرکے اپنا نیا سفر شروع کیا ۔

خلائی مسابقت

سرد جنگ کے دوران امریکا اور روس کا نہ صرف فوجی اور معاشی لحاظ سے مقابلہ جاری تھا بلکہ دونوں سپر پاور خلا کو فتح کرنے میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔ روس سب سے پہلے خلا پہنچنے میں کامیاب ہوا تو امریکہ کے نیل آرم سٹرانگ 1969 میں چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان بن چکے۔

مسئلہ فلسطین

پہلی جنگ عظیم کے دوران فلسطین برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا ۔ 1917 میں برطانوی حکومت نے بالفور ڈکلیریشن کے ذریعے یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دے دی ۔ 1948 میں اقوام متحدہ نے فلسطینی سرزمین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا کیا عربوں نے یہ منصوبہ مسترد کردیا جبکہ یہودیوں نے اس تجویز کا خیر مقدم کرکے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا ۔ اسی مسئلے پر 1948، 1964 اور 1973 میں تین عرب اسرائیل جنگیں بھی لڑی جا چکی ۔ جن میں اکثر میں اسرائیل کا پلڑا بھاری رہا ۔ اسرائیل آج مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

تقسیم کرو اور حکومت کرو

یورپی طاقتوں خصوصاً انگریزوں نے بیسویں صدی میں اس پالیسی کے تحت آزادی دیتے وقت ہندوستان کو دو ممالک بھارت اور پاکستان میں تقسیم کر دیا اور دونوں کے بیچ کشمیر کا مسئلہ چھوڑ دیا جن پر دونوں ممالک کے درمیان 1947 ، 1965 اور 1999 میں تین جنگیں لڑی گئیں ۔ آج دونوں جوہری طاقتیں ہیں اور ان کے درمیان کا سرحد دنیا کا خطرناک ترین سرحد ہے ۔

تقسیم کے اس پالیسی کے تحت عرب دنیا کو بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ان کو ہمیشہ کے لئے دفاعی لحاظ سے اپنا محتاج بنایا گیا ۔

سائنسی ترقی

بیسویں صدی کے آغاز میں ہوائی جہاز کی ایجاد سے مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا تو صدی کے اواخر میں کمپیوٹر و انٹرنیٹ نے ٹیلی کمیونیکیشن کی دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم اور بین البراعظمی میزائلوں کی ایجادات دفاعی میدان کے لیے سنگ میل ثابت ہوئے تو انسان کا خلا اور چاند تک پہنچنا ایک نئی دنیا کا سراغ ۔ الغرض بیسویں صدی ایک عالمگیر تبدیلی کی صدی ثابت ہوئی ۔

خیبر پختونخوا کے گورنر صاحبان ، تاریخی جائزہ

بلوچستان بمقابلہ ریاست پاکستان ؛ کل اور آج

دنیا کی تاریخ ، ساتواں حصہ ؛ انیسویں صدی پر ایک نظر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *