مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
خیبر پختونخوا کا پرانا نام شمال مغربی سرحدی صوبہ تھا جن کو عرف عام میں صوبہ سرحد کہا جاتا تھا ۔ اس علاقے کو انگریزوں نے 1901 میں چیف کمشنر صوبے اور 1932 میں مکمل صوبے کی حیثیت دی تھی ۔ آزادی سے پہلے ہندوستان کے تمام صوبوں کے گورنر انگریز ہی ہوتے تھے اور گورنروں کے ساتھ وزراء اعلیٰ سے زیادہ اختیارات ہوتے تھے ۔ 1973 کے آئین کے مطابق صوبے کے اندر وزیر اعلیٰ کو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت حاصل ہے جبکہ گورنر ایک علامتی سربراہ کے طور پر برائے نام اختیارات کا مالک ہوتا ہے لیکن یاد رہے کہ چونکہ فاٹا کا پختونخوا کے ساتھ ضم ہونے تک قبائلی علاقے براہِ راست گورنر خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام ہوتے تھے اس لیے دوسرے گورنر صاحبان کے مقابلے میں گورنر خیبرپختونخوا کے اختیارات سب سے زیادہ ہوتے تھے ۔
گورنر راج
گورنر راج نافذ ہونے کی صورت میں وزیر اعلیٰ اور ان کے کابینہ کے تمام اختیارات گورنر کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں ۔ آئین کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس کسی بھی صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کا اختیار موجود ہوتا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر چار مرتبہ گورنر راج نافذ کیا گیا ہے ۔ جن میں دو بار جمہوری دور میں 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو اور 1994 میں بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں لاگو کیا گیا جبکہ دو بار آمریت کے دور میں 1977 سے 1988 تک اور 1999 سے 2002 تک گورنر راج نافذ رہا ۔
آج تک گورنر کے عہدہ پر رہنے والوں میں آٹھ انگریز ، بارہ کا تعلق فوج ، سات کا مسلم لیگ ، پانچ کا پیپلز پارٹی ، دو دو کا اے این پی اور جمیعت علمائے اسلام اور ایک کا پاکستان تحریک انصاف سے رہا ہے ۔
پہلا پاکستانی گورنر صاحبزادہ خورشید
صاحبزادہ محمد خورشید پہلے پاکستانی ، مسلمان اور پختون تھے جو 1949 میں صوبہ سرحد کے گورنر بنے ۔ آپ کا تعلق ضلع صوابی کے گاؤں کوٹھا سے تھا اور خیبرپختونخوا کے پہلے وزیر اعلیٰ اور اسلامیہ کالج پشاور کے بانی صاحبزادہ عبد القیوم خان کے خاندان سے تھے ۔ آپ اسلامیہ کالج پشاور کے پہلے طالب علم ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے ۔ آپ بنیادی طور پر سیاست دان نہیں تھے بلکہ بیوروکریسی سے تعلق رکھتے تھے ۔
اسماعیل ابراہیم چندریگر
آپ فروری 1950 سے نومبر 1951 تک گورنر رہے ۔ آپ 1946 میں ہندوستان کی مرکزی حکومت میں مسلم لیگ کی طرف سے وزیر رہے اور بعد میں وزیراعظم پاکستان بنے تھے ۔
خواجہ شہاب الدین
آپ وزیراعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کے چھوٹے بھائی تھے ۔ آپ کا تعلق ڈھاکہ کے نواب خاندان سے تھا ۔ آپ 1951 سے 1954 تک تین سال گورنر رہے ۔ آپ کے بعد ایک سال تک قربان علی شاہ گورنر رہے جس کے بعد 1955 میں ون یونٹ سسٹم کی نفاذ کے نتیجے میں پورے مغربی پاکستان کو ایک صوبہ بنایا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں
جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں ون یونٹ سسٹم کو ختم کرکے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو بحال کردیا اور لیفٹننٹ جنرل اظہر خان کو خیبر پختونخوا کا گورنر بنایا ۔ بھٹو نے اقتدار ہاتھ میں لیا تو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیاستدان حیات احمد خان شیرپاؤ کو گورنر شپ دے دی جس کے بعد نیپ کے ارباب سکندر خان اور اسلم خان خٹک یکے بعد دیگرے گورنر بنے ۔ اس کے بعد میجر جنرل سید غوث دو سال تک اس عہدے کے مزے لیتے رہے اور آخر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نصیر اللہ بابر اس معزز کرسی پر بیٹھ گئے۔
جنرل ضیا کا زمانہ
جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرتے ہی نصیراللہ بابر کو ہٹا کر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عبد الحکیم خان کو گورنر کا عہدہ دے دیا اور پھر مردان سے تعلق رکھنے والے فوجی جنرل فضل حق کو اس کرسی کے لیے پسند کیا ۔ آپ سب سے طویل عرصہ تک گورنر رہنے کا اعزاز رکھتے ہیں آپ کا دور سات سال پر محیط تھا ۔ جنرل ضیاء کے بقیہ تین سالہ عرصہ میں نوابزادہ عبدالغفور ہوتی (جمیعت علمائے اسلام) ، سید عثمان علی شاہ (سول سروس) اور فدا محمد خان (مسلم لیگ نون) کو گورنر بننے کا اعزاز بخشا گیا ۔
ضیاء الحق کی حکومت ختم ہوئی مگر جمہوری دور میں بھی خیبر پختونخوا کے گورنر کا عہدہ فوجی جرنیلوں کے پاس ہی رہا ۔ 1988 سے پانچ سال کے لیے بریگیڈیئر امیر گلستان جنجوعہ ، پھر تین سال کے لئے میجر جنرل خورشید علی اور پھر دو سال کے لیے لیفٹیننٹ جنرل عارف بنگش گورنر ہاؤس پشاور کے مہمان بنے اور جب وزیراعظم نواز شریف نے مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سوات کے سابق شاہی خاندان کے میاں گل اورنگزیب کو گورنر مقرر کیا تو صرف دو مہینے بعد جنرل مشرف نے جمہوری حکومت ختم کرکے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔
پرویز مشرف کا دور
پرویز مشرف نے 2000 میں لیفٹیننٹ جنرل افتخار حسین شاہ کو گورنر بنایا جو پانچ سال تک اس عہدہ پر فائز رہے ۔ 2005 میں کمانڈر خلیل الرحمن ، 2006 میں لیفٹیننٹ جنرل علی محمد جان اورکزئی اور پھر 2008 میں اویس احمد غنی کو اس منصب پر فائز کیا گیا ۔ یاد رہے کہ اویس احمد غنی اس سے پہلے بلوچستان کے گورنر بھی رہ چکے تھے ۔ آپ پارٹی سیاست سے بالاتر تھے ۔
پیپلز پارٹی حکومت
صدر زرداری نے 2011 میں اپنی جماعت کے کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے نامور اردو شاعر احمد فراز کے بھائی مسعود کوثر کو گورنر کا عہدہ دے دیا ہے ۔ جسے پیپلز پارٹی ہی کے شوکت اللّٰہ خان سے تبدیل کر دیا گیا ۔
مسلم لیگ حکومت
وزیر اعظم نواز شریف نے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے اپنی جماعت کے دو رہنماؤں کو یکے بعد دیگرے اس عہدہ سے نوازا ۔ 2014 سے دو سال کے لیے ایبٹ آباد کے مہتاب عباسی اور اگلے دو سال کے لیے نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے اقبال ظفر جھگڑا کو گورنر بنایا گیا ۔
پاکستان تحریک انصاف مرکز میں حکومت میں آئی تو پارٹی رہنما شاہ فرمان کو گورنر بنایا گیا جو پی ڈی ایم حکومت بننے تک اس عہدہ پر فائز رہے ۔ پی ڈی ایم حکومت نے جمیعت علمائے اسلام کے غلام علی کو گورنر کا عہدہ دے دیا اور وہی موجودہ گورنر ہے جن کا مجموعی طور پر 34 واں نمبر بنتا ہے ۔
آج کی دنیا میں سافٹ سکلز کی اہمیت
بلوچستان بمقابلہ ریاست پاکستان ؛ کل اور آج
فلسفہ کسے کہتے ہیں، فلسفی کون ہوتا ہے؟ جانئیے۔