خوشی کی حقیقت، ہم کس حد تک خوش ہوسکتے ہیں۔

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

خوشی موضوع کے طور پر

خوشی کے موضوع پر کتابیں لکھنے کا سلسلہ پچھلی صدی میں امریکہ سے شروع ہوا۔ مگر باقی دنیا میں میں 2000 کے بعد خوشی ایک دلچسپ اور متاثر کن موضوع بحث بنی۔ یوٹیوب آنے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں موٹی ویشنل سپیکر سامنے آئے جنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں خوشی کے موضوع پر لیکچر دئیے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ حیران کن طور پر بحرانوں کے وقت خوشی کی یہ مارکیٹ تنزلی کی بجائے مزید ترقی کرتا ہے مثلا 2007-08 کے مالیاتی بحران اور 2020 کے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران جب لوگ بے روزگار ہو گئے تو بے چینی کے اس دور میں ذہنی سکون کی خاطر لوگوں نے بڑی تعداد میں خوشی پر لکھی گئی کتابوں اور ویڈیو کا رخ کیا۔

ہم خوشی چاہتے کیوں ہیں

بحرانوں کے وقت خوشی کی چاہت میں اضافے سے یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ دراصل ہم خوشی اس وجہ سے چاہتے ہیں کہ ہم اداس ہوتے ہیں جیسا کہ تندرستی کی چاہت بیمار ہی کرتا ہے سب سے پہلے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم اداس کیوں ہیں؟ اگر ہم اداسی کی یہ وجہ جاننے اور ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو خود بخود خوش ہو جایئں گے۔

خوشی کی چابی

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر ہم خوشی کے پیچھے بھاگنے میں لگ جائے تو پھر ہم کبھی بھی خوش نہیں ہوسکتے مثلاً لوگ خوشی کی موضوع پر لکھی گئی ایک کتاب خریدتے ہیں مگر پھر دوسری تیسری اور نہ جانے کتنے خریدتے ہیں تو اب اگر ان کتابوں میں خوشی کی چابی ہوتی تو مزید کتاب خریدنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔

خوشی کا دارومدار کس چیز پر ہے

بعض لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ خوشی کا دارومدار صرف ہم پر ہیں یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ باہر کا ماحول ہم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک مشہور مفروضہ ہے کہ خوشی کے اسباب میں 50 فیصد حصہ ہماری جینز کا، 40 فیصد ہماری مرضی کا اور 10 فیصد ہمارے حالات کا ہے۔ اب اگر ہم باریکی سے اس بات پر غور کریں تو حالات کا خوشی یا دکھ میں حصہ کبھی بھی چالیس فی صد سے کم نہیں ہو سکتا۔

کیا لافانی خوشی حاصل کرنا ممکن ہے

ہم یہاں بھی ایک دھوکے کے ساتھ جی رہے ہیں کہ ہم دکھ یا غصہ کو مکمل طور پر برا سمجھ کر اسے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں اور ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ انسانی جذبات ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی میں کوئی بھی ایسا مقام اور موڑ نہیں ہے جہاں پہنچ کر انسان ایسی خوشی حاصل کرے گا جن کے بعد کبھی بھی کوئی غم نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے یہاں ایک امتحان ختم ہونے کے بعد دوسرا ہمارا انتظار کرتا ہے ان امتحانات اور دکھوں کے ساتھ ہی جینا ہوگا۔ اگر ہم یہ بات سمجھ لیں تو بھی ہم ان دکھوں سے بڑی حد تک ہلکے ہو سکتے ہیں۔

کیا خوشی کو زندگی کا مقصد بنانا ٹھیک ہے

اب وہ نوجوان جن کے مطابق ہماری زندگی کا مقصد خوشی ہے انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ خوش ہونے کو زندگی کا مقصد بنانا ہی غلط ہے۔ ہمیں حال میں یعنی موجودہ لحظے میں اپنے آپ کو خوش رکھنا سیکھ لینا چاہیے ۔ “میں زیادہ خوش رہوں گا” کے بجائے “میں کسی کی خوشی کا باعث بنوں گا” یہ بات زیادہ ٹھیک ہے۔

اسلام خوشی کے بارے میں کیا کہتا ہے

ہمارا مذہب اسلام بھی ہمیں خوش ہونے کے طریقے سکھاتا ہے مثلاً کہ دنیاوی لحاظ سے اپنے سے اوپر کے لوگوں کو مت دیکھو بلکہ اپنے سے نیچے کے لوگوں کو دیکھو تو مطمئین ہو جاؤ گے۔ اسی طرح دنیای پریشانیوں پر صبر کرنے والوں کو خدا بشارت دیتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں اور آپ کو صبر کا بہترین بدلہ دیا جائے گا۔ اگلی جگہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر آپ اپنی موجودہ نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو آپ پر نعمتوں کی فراوانی کی جائے گی۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔

میچوریٹی کیا ہے، میچور کون ہے، میچور شخص کی بارہ نشانیاں

آزادی یا غلامی، کیا میں خود غلام تو نہیں؟

3 thoughts on “خوشی کی حقیقت، ہم کس حد تک خوش ہوسکتے ہیں۔”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *