خوشحال خان خٹک: ایک عہد ساز شخصیت

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

خوشحال خان نے جو کام کیا کمال کر دیا، آپ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے ہندوستان کی مغل حکومت کے منصب دار کے طور پر کام کیا اور پھر انہی مغلوں کے خلاف آزادی کی جنگ بھی لڑی۔ آپ ایک پختون قوم پرست تھے تو ایک پکے مسلمان بھی۔ آپ پشتو کے سب سے بڑے شاعر ہونے کا اعزاز رکھتے تھے (اور ہے) تو عربی و فارسی کے بہت بڑے عالم بھی تھے۔ آپ ہی نے عربی کے مشہور درسی کتاب “ہدایہ” کا سب سے پہلے پشتو میں ترجمہ کیا تھا۔ وہ بیک وقت قلم اور تلوار کے استعمال کے ماہر تھے۔ آپ نے عشق مجازی کے سمندر میں غوطے کھائے تو آپ کی شاعری سے عشق حقیقی بھی مکمل طور پر عیاں ہے۔ آج کل لوگ اپنے دو چار بچوں کو نہیں سنبھال سکتے جبکہ بابا نے 60 بیٹوں اور 32 بیٹیوں کے ایک بڑے کنبے کے ساتھ اتنے کارنامے سرانجام دیے ہیں جنہیں دیکھ کر بندہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ خدا نے آپ کی عمر میں حد درجہ برکت ڈالی تھی۔

خوشحال خان 1613 میں نوشہرہ کے مشہور قصبے اکوڑہ خٹک میں شہباز خان کے گھر پیدا ہوئے۔ اس قصبے کا نام بھی آپ کے دادا اکوڑ خان کے نام پر ہے۔ آپ کے باپ دادا بھی خٹک قبیلے کے سردار اور مغلوں کے دربار میں اہم منصب پر فائز رہے تھے۔ یہی منصب اور سرداری آپ کو وراثت میں ملی۔ مغل حکومت کے اتحادی ہونے کے ناطے آپ کی ذمہ داری تھی کہ اٹک سے پشاور تک جی ٹی روڈ پر مغلوں کی عملداری قائم رکھیں۔

خٹک اور یوسفزئی قبیلوں کے درمیان لڑائیاں

خٹک مغلوں کے ہمنوا تھے جبکہ یوسفزئی زیادہ تر مغلوں کے مخالف رہے۔ جیسا کہ 1585 میں یوسفزئ لشکر نے کالو خان کی سپہ سالاری میں خدوخیل (بونیر) اور پھر پیر روخان کی قیادت میں ٹوپی (صوابی) میں مغلوں کے خلاف بھرپور جنگیں لڑیں تھیں۔ خوشحال خان کے دور میں یوسفزئی قبیلے کا سردار بہاکو خان تھا۔ اگر چہ بہاکو خان بھی کچھ عرصہ مغل دربار سے منسلک رہا تھا۔ لیکن جب مغل بادشاہ شاہجہان کے بیٹوں کے درمیان تخت پر قبضے کے لیے جنگ شروع ہوئی تو بہاکو خان نے دارا شکوہ اور خوشحال خان نے اورنگزیب کا ساتھ دیا۔ تخت نشینی کی اس جنگ میں اورنگزیب کامیاب ہوئے تو اس نے اپنے بھائی داراشکوہ کی آنکھیں نکال کر انہیں قتل کر دیا اور بہاکو خان کا مغل دربار سے رابطہ ختم ہوا۔ دوسری طرف خوشحال اب بھی مغلوں کے منصب پر فائز تھے۔ مورخین یوسف زئی اور خٹک قبیلے کے درمیان جنگوں کے دو وجوہات بتاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یوسف زوں نے مغلوں کے خلاف بغاوت کی جبکہ خٹک ان کے حمایتی رہیں اور دوسرا جب دونوں قبائل نے ایک دوسرے پر جائیداد (زمین) کے قبضے کے الزامات لگائے۔

خوشحال خان کا نیا روپ

بہت جلد خوشحال اور اورنگزیب کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور آپ کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جیل سے رہائی ملنے کے بعد آپ نے نہ صرف مغلوں کی منصب داری چھوڑی بلکہ ماضی میں ان کی خدمت کرنے اور یوسفزئی قبیلہ کے ساتھ جنگیں لڑنے پر انتہائی پشیمانی کا اظہار کیا۔ بابا نے اب اپنی زندگی کا ایک مقصد بنالیا تھا جو پختونوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا اور مغلوں سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ جیسا کہ ایک جگہ فرماتے ہیں۔

د افغان په ننګ مې وتړله توره
ننګيالی د زمانې خوشحال خټک يم

یعنی کہ افغان قوم پر غیرت کی خاطر میں نے تلوار اٹھائی ہے۔ بابا اپنے مقصد کے ساتھ حد درجہ مخلص اور اتنی دیوانگی کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے کہ دوسری جگہ فرماتے ہیں۔

په جهان د ننګيالو دي دا دوه کاره
يا به وخوري ککرۍ يا به کامران شي

کہ اس دنیا میں تو غیرتی لوگوں کے صرف دو کام ہیں کہ وہ یا تو اپنی منزل حاصل کر پاتے ہیں یا منزل حاصل کرنے کی خاطر موت کو گلے لگاتے ہیں۔

اگر چہ خوشحال خان نے جگہ جگہ اپنی شاعری میں پختون قوم سے گلے شکایتیں بھی کی ہے۔ کیونکہ ایک قبائلی قوم کے درمیان اتحاد پیدا کرنا انتہائی مشکل کام تھا۔ لیکن آپ بھی پیر روشان کی طرح اپنی مقصد حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے۔

دا نر‌ خوشحال وو چې ئی لښکرې کړې
په پښتنو کې لښکرې ګرانې دي

کہ پختونوں کو ایک پرچم تلے جمع کرنا خوشحال خان کا کارنامہ تھا وگرنہ یہ ناممکن کے قریب تھا۔ اور پھر ان کوششوں کا ثمر بھی ملا کے اکثر علاقے مغلوں کی غلامی سے آزاد ہو چکے۔

خوشحال خان ایک شاعر اور ادیب کے روپ میں

پشتو شاعروں کی درجہ بندی میں خوشحال خان کا پہلا، رحمان بابا کا دوسرا اور حمید بابا کا تیسرا نمبر ہے۔ آپ کی شاعری کی ایک بہت بڑی کتاب “کلیات خوشحال” کے نام سے موجود ہے۔ آپ کی شخصیت کی طرح آپ کی شاعری میں بھی ہمہ گیریت پائی جاتی ہے۔ آپ نے عشقیہ، صوفیانہ، سیاسی، مذہبی، قومی اور رزمیہ (غیرت، بہادری اور جنگوں کے واقعات) پر مبنی ہر قسم کی شاعری کی ہے۔ چونکہ آپ کے کئی بیٹے اور پوتے بھی شاعر و ادیب تھے اس لیے آپ کے خاندان نے مجموعی طور پر پشتو ادب کی انتہائی زیادہ خدمت کی ہے۔

آپ نہ صرف شاعر بلکہ ایک بہت بڑے نثر نگار بھی تھے۔ آپ کی نثر کی کتابوں میں سوات نامہ، باز نامہ، فضل نامہ اور دستار نامہ قابلِ ذکر ہیں۔ دستار نامہ میں آپ نے بادشاہ یا سردار کو مخاطب کرکے انہیں قیادت کرنے کے اصول اور گر سکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب آپ نے مغلوں کے جیل میں قید ہونے کے زمانے میں لکھی تھی۔

خوشحال خان ایک پکے مسلمان

بابا اپنی تمام مصروفیات میں بھی وقت نکال کر اپنے دور کے اولیاء اللہ کے دربار پر حاضری دینے، دعائیں لینے اور برکتیں سمیٹنے جاتے رہتے تھے۔ بہت سے لوگ بابا کے کثرتِ اولاد کا سن کر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آپ نے کتنی شادیاں کی تھی۔ ظاہر ہے آپ نے زیادہ شادیاں کی تھیں لیکن آپ نے کبھی بھی بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ کو نہیں رکھا۔ آپ عقیدہ کے لحاظ سے پکے حنفی، سنی مسلمان تھے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر مذہبی و روحانی لحاظ سے آپ کا موازنہ عبدالرحمن بابا سے کیا جائے تو بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ رحمان بابا ایک رسیدہ اور متقی ولی اللہ تھے۔ جبکہ آپ اگر چہ خود ایک صوفی تو نہیں تھے لیکن ان لوگوں کی خدمت گار ضرور تھے۔ اور یہ بھی کوئی کم اعزاز کی بات نہیں تھی۔

خوشحال بابا کی زندگی سے آج کے نوجوانوں کو یہ سبق ملتی ہے کہ وقت کو کبھی بھی ضائع نہیں کرنا، اپنے لیے اہداف مقرر کرنا اور زندگی کا ایک مقصد بنانا چاہیے۔ پھر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آخری حد تک جانا چاہیے۔ اسی طرح ہی تاریخ میں نام درج ہو جاتے ہیں۔

آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے محکمہ ریلوے نے پشاور اور کراچی کے درمیان چلنے والی ایک ٹرین کا نام خوشحال خان ایکسپریس رکھا ہے جبکہ کرک میں خوشحال خان یونیورسٹی ، نوشہرہ میں خوشحال خان کالج، خوشحال خان لائبریری اور اسلام آباد میں ایک سڑک بھی آپ کے نام پر ہیں۔

مادیت بمقابلہ روحانیت، یہ روحانیت کیا چیز ہے

پشتو شاعری کی تاریخ، حصہ اول: امیر کروڑ سے خوشحال خان خٹک تک

ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں، ہم ایک ہیں لیکن کیسے؟

16 thoughts on “خوشحال خان خٹک: ایک عہد ساز شخصیت”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *