مصنف : عامر ظهير ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر )
نوٹ : کتاب خدوخیل (علاقہ اور شخصیات) اس آرٹیکل کے لکھاری عامر ظہیر کی پہلی کتاب ہے جو خدوخیل پر لکھی گئی پچھلی دونوں کتابوں سے مکمل مختلف ہے کیونکہ ان دونوں کتابوں میں باجا بام خیل کا کوئی ذکر شامل نہیں تھا ۔ دوسرا کہ یہ کتاب ماضی قریب اور حال کے کامیاب شخصیات اور ان کے کارناموں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے جبکہ باقی دونوں کتابیں دوسرے موضوعات پر مبنی تھیں ۔ یہ ایک تحقیق پر مبنی کتاب ہے یعنی کہ مصنف نے خود گاؤں گاؤں گھوم کر معلومات اکٹھی کی ہے ۔
آج کی دنیا میں چھ ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ یعنی کہ دنیا میں 6 ہزار سے زائد اقوام آباد ہیں ۔ اس کے اندر تین سو سے چار سو تک اقوام آج بھی قبائلی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان قبائلی زندگی گزارنے والی اقوام میں پختون قوم آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی قوم ہے ۔ یہ قوم درجنوں چھوٹے بڑے قبائل میں تقسیم ہے جن میں آبادی کے لحاظ سے یوسفزئی سب سے بڑا قبیلہ ہے ۔ جو خیبر پختونخوا کے اضلاع مردان ،صوابی ، سوات ، دیر ، بونیر ، شانگلہ ، ملاکنڈ اور باجوڑ میں آباد ہیں ۔
خدوخیل اسی قبیلہ یوسف زئی کی ایک شاخ ہے جو ( آج سے تقریباً پانچ صدیاں قبل گزرنے والے) یوسفزئی مشر خدو بابا کی اولاد ہیں اور آج کل تحصیل خدوخیل بونیر اور باجا بام خیل ضلع صوابی میں رہائش پذیر ہیں ۔ 2017 کی مردم شُماری کے مطابق تحصیل خدوخیل کی آبادی ایک لاکھ 18 ہزار اور باجا بام خیل کی مجموعی آبادی تقریباً 50 ہزار تھی ۔
تاریخی جائزہ
تاریخی طور پر یہ علاقہ ایک وقت میں گندھارا تہذیب کے زیر اثر رہا ۔ بدھ مت کے روبہ زوال ہونے کے بعد ہندو مت نے یہاں عروج پایا ۔ دسویں یا گیارہویں صدی عیسوی میں دلازاک نامی پختون قبیلہ کے لوگ افغانستان سے یہاں آ کر آباد ہو چکے ۔ موجودہ قبیلہ خدوخیل کے لوگ پندرہویں یا سولہویں صدی میں یہاں آ کر آباد ہوئے ۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں خدوخیل سکھوں کے خلاف جہاد کا مرکز رہا اور سید احمد شہید نے یہاں کئی سال گزارے ۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ کبھی بھی سکھوں کے زیرنگیں نہیں رہا ۔ انیسویں صدی میں خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں پر انگریزوں نے قبضہ جما لیا مگر تحصیل خدوخیل انگریزوں کے براہ راست قبضہ سے محفوظ رہا ۔ 1924 میں یہ علاقہ سوات کے یوسفزئی ریاست کا حصہ بن چکا ۔ 1969 میں ریاست سوات کا پاکستان میں ضم ہونے کے ساتھ یہ علاقہ بھی باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن چکا ۔
تاریخی شخصیات
خدوخیل میں کئی ایک تاریخی شخصیات گزرے ہیں جن میں سر فہرست بام بابا ہے ۔ آپ ایک مذہبی اور سماجی شخصیت ہونے کی وجہ سے پورے علاقہ میں ایک پہچان رکھتے تھے ۔
بہاکو خان خدو بابا کے پڑپوتے تھے ۔ یاد رہے کہ آپ پورے علاقہ یوسفزئی کے حکمران منتخب ہوئے تھے ۔ بعد میں اس خاندان کے فتح خان وہ شخصیت تھے جنہوں نے سید احمد شہید سمیت ہزاروں مجاہدین کی کئی سال تک مہمان نوازی کی تھی ۔مقرب خان نے انگریزوں کے خلاف کئی مہمات میں حصہ لیا تھا ۔
ریاست سوات کی طرف سے تحصیل خدوخیل کو چار سے چھ خوانین کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا ۔ جن میں نوار خان مداخیل کو مرکزی اور قائدانہ حیثیت حاصل تھی ۔
سیاست اور سیاسی شخصیات
ریاست سوات میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی ۔ مگر ریاست کی مشاورتی کونسل کے لیے انتخابات ہوتے رہتے تھے جن میں 1954 میں چینگلئ کے ملک احمد خان مداخیل اور 1958 میں طوطالئ کے ملک عبداللہ خان بدلہ خیل اس کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تھے ۔ پاکستان میں شمولیت کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تھے جن میں حیدر زمان مداخیل ، صفی اللّٰہ بدلہ خیل اور کریم بابک بدلہ خیل چئیرمن منتخب ہوئے تھے ۔ یاد رہے کہ اس دور میں آج کا تحصیل خدوخیل صرف ایک یونین کونسل پر مشتمل ہوتا تھا ۔
کریم بابک بعد میں ایم پی اے اور صوبائی وزیر بھی بن چکے ۔ آپ کو اے این پی ضلع بونیر کا تا حیات صدر بھی بنایا گیا ہے ۔ اسی خاندان کے سردار حسین بابک 2008 سے مسلسل تین مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن بن چکے ہیں اور اے این پی دور میں صوبائی وزیر تعلیم بھی رھ چکے ہیں ۔
دوسری طرف ضلع صوابی کے قصبہ جات باجا اور بام خیل سے حاجی رنگیز خان پہلے آدمی تھے جو 2018 میں صوبائی اسمبلی کے فلور تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ ان کے علاوہ یونین کونسل کی سطح پر یہاں ناظم بننے والوں میں فقیر زادہ جعفر خیل ، محمد سلیم عثمان خیل ، محمد سلیم مداخیل ، عزیزاللہ خان مداخیل ، احسان الحق باچا اور سرور خان عثمان خیل شامل ہیں ۔
تعلیم
قیام پاکستان سے پہلے خدوخیل میں تین پرائمری سکول قائم ہو چکے تھے جو گورنمنٹ پرائمری سکول باجا (1912) ، گورنمنٹ پرائمری سکول بامخیل (1946) اور گورنمنٹ پرائمری سکول طوطالئ (1946) تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سکولوں کو مڈل اور ہائی کا درجہ دیا گیا جبکہ ان کے ساتھ لڑکیوں کے لئے بھی سکول قائم کیے گئے ۔ آزادی سے پہلے یہاں گنتی کے کچھ نوجوانوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی ۔
باجا سکول کے پہلے استاد عنبر شاہ صاحب تھے جبکہ یہاں سے پہلے مڈل پاس کرنے والے امیر محمد پٹواری اور میٹرک تک پڑھنے والے سلطان محمد خان تھے ۔ بام خیل کے اولین میٹرک پاس نوجوان میر عجب خان اور میر ہاشم خان یونس خیل تھے ۔
آج درجنوں نوجوان پی ایچ ڈی تک پڑھ چکے ہیں یا پڑھ رہے ہیں ۔ کتاب میں تمام پی ایچ ڈی سکالرز کے بارے میں مختصر تعارفی بیان موجود ہے ۔
مذہبی شخصیات
مذہبی حوالے سے بام خیل کے باچہ گان خاندان پورے خیبر پختونخوا کی سطح پر ایک پہچان رکھتا ہے اس خاندان کے جد امجد لالا جی صاحب ، باچا صاحب ، عبدالشکور بادشاہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ سیاسی لحاظ سے بھی انتہائی اہم مقام پر فائز تھے ۔ پورے علاقے خدوخیل میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کرنے والے صرف ایک شخصیت گزرے ہیں آپ کا نام شفیع اللہ باچا تھا ۔ آپ بعد میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں مدرس بھی رہے ۔ شیخ شیراسلم خان صاحب ، مولانا عبدالمنان ، کلان باباجی اور موجودہ دور کے کئی ایک علماء اس میدان کے قابل قدر نام ہیں ۔
دیگر نمایاں شخصیات
تحقیق کے دوران کئی متاثر کن شخصیات کی کہانیاں ہمارے سامنے آئیں مثال کے طور پر ڈاکٹر انور اللہ بادشاہ کا 1971 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا ، بعد میں وفاقی شرعی عدالت میں جج کے طور پر کام کرنا یا برونائی دارلاسلام میں نائب چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچنا ۔ آپ اپنے علاقے کے پہلے شخص تھے جو سرکاری ملازمت میں 22 گریڈ تک ترقی پا چکے تھے ۔
یا کہ میجر ریٹائرڈ محمد ایوب خان کی کہانی جو اس پسماندہ علاقے سے پہلے آرمی افسر بنے اور پھر سول سروس میں چیف سیکرٹری کے عہدے تک پہنچ چکے ۔ جاوید اقبال خان پہلے خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری بنے اور بعد میں وفاقی سیکرٹری کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔
ان کے علاوہ دیگر قابل ذکر اصحاب میں ملکی سطح پر معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر عبد الصمد باچا کراچی اور ڈاکٹر نور باچا امریکہ ، سابق سی ای او جیمز اینڈ جیولری بختیار خان ، ایڈیشنل آئی جی جیل خانہ جات تاج سلطان ، سابق ڈی پی او میر قاسم خان ، ڈی پی او نیاز محمد ، وی سی ہری پور یونیورسٹی ڈاکٹر ناصر خان ، پروفیسر ڈاکٹر سلطان زیب ، پروفیسر ڈاکٹر نسیم اللہ قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ شاہ ، صحافی شمیم شاہد ، بریگیڈیئر سعید ابرار اور ادیب شیرین زادہ خدوخیل شامل ہیں ۔
ہر گزرنے والا لمحہ ماضی بن جاتا ہے اگر ہم آج کو محفوظ نہ کریں تو یہ آنے والے نسل کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ ہماری مٹی اور قوم ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ان کے لیے کچھ کیا جائے ۔ خدا آسان اور قبول فرمائیں ۔