خدائی خدمتگار تحریک کی تاریخ اور اہمیت

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

وہ لوگ تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں جو غلامی کے زمانے میں اپنی قوم کے لئے خدمات سرانجام دیتے ہیں، جو قوم کی خاطر جیل کاٹتے ہیں، کوڑے کھاتے ہیں اور غداری کے الزامات کا سامنا کرتے ہیں۔ تاریخ اہل اقتدار کے چاپلوسوں اور ہر وقت ذاتی و وقتی مفادات کے پیچھے بھاگنے والوں کو بھلا دیتی ہے۔ نام زندہ رہتا ہے تو ان لوگوں کا جو وقت کے فرعونوں کے سامنے موسیٰ کی طرح حق بات کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک بڑا نام برطانوی ہند سے تعلق رکھنے والے پختون رہنما خان عبدالغفار خان کا ہے۔ خان 1890 میں بہرام خان کے گھر موجودہ چارسدہ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ پختونوں کے درمیان باچاخان کے نام سے مشہور عبدالغفار لڑکپن سے دیگر افغان خوانین کے لڑکوں سے مختلف تھا۔ انہوں نے علی گڑھ کالج سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی تو دل میں اپنے لوگوں کے لئے کچھ کر گزرنے کی خاطر 1921 میں انجمن اصلاح افاغنہ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ 1927 میں انجمن زمینداران اور 1928 میں پشتون جرگہ کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم بنائی۔ سماجی خدمت کی خاطر 1929 میں خدائی خدمتگار کی بنیاد رکھی۔

خدائی خدمت گار دراصل پختون معاشرے کی اصلاح اور خدمت کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ جن کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھی۔ 1930 میں انگریزوں نے قصہ خوانی بازار پشاور اور پھر مردان کے ٹکر گاؤں میں پختونوں پر سیدھی گولیاں چلا کر ان کو لہولہان کر دیا تو یہ تحریک سماجی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی بن چکی۔ سیاست میں آنے کے بعد بادشاہ خان نے مسلم لیگ کی طرف اتحاد کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر مثبت جواب نہ ملنے پر کانگریس کے اتحادی بنے اور یہ اتحاد پھر تقسیم ہند تک قائم رہی۔ تنظیم نے 1930 اور 1946 کے انتخابات میں حصہ لے کر دو مرتبہ خیبرپختونخوا میں میدان مار لیا اور باچا خان کے بڑے بھائی عبدالجبار خان (ڈاکٹر خان صاحب) وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

خدائی خدمت گار تحریک کے مقاصد اور کامیابیاں

تحریک کے مقاصد انگریزوں کے خلاف اپنے وطن کی آزادی کے لئے پرامن جدوجھد کرنا ، پختونوں کے مفادات کا تحفظ کرنا، بچوں کو عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا اور نوجوانوں کو سیاسی طور پر باشعور و بالغ بنانا تھیں۔ تنظیم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اگرچہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کارکنان نے اپنے سینوں پر انگریز سپاہیوں کی گولیاں کھائیں، باچا خان اور ان کے ساتھیوں کو چھ مرتبہ گرفتار کرکے کئی سالوں تک جیلوں میں رکھا گیا۔ مگر تنظیم اپنے عدم تشدد کی پالیسی پر کاربند رہ کر اپنی جدوجھد میں مصروفِ عمل رہی۔

باچا خان

تنظیم کے زیر اثر ڈیڑھ سو تک سکول کھولے گئے جن میں ان بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی جن کے پیروں میں جوتے بھی نہیں ہوتے تھے۔ باچا خان نے اپنے بڑے بیٹے عظیم شاعر عبدالغنی خان کو ہندوستان کے ایک اعلی تعلیمی ادارے سے نکلوا کر ان غریب بچوں کے ساتھ سکول میں بٹھا دیا تاکہ ہم وطن ان پر اعتراض نہ کریں کہ اس کا اپنا بیٹا امیروں کے اسکول میں پڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت خیبر پختونخوا کی آبادی انتہائی کم تھی لیکن پھر بھی تنظیم کے کارکنان کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی، جن میں خواتین ورکر بھی شامل تھیں جو پختونوں کا بادشاہ خان پر اعتماد کا عظیم مظہر تھا۔

خدائی خدمت گار اور تقسیم ہند

خدائی خدمتگار کے رہنما ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور تقسیم ہند کے شدید مخالف تھے۔ 3 جون 1947 کو جب تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا گیا تو صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) کے عوام کو پاکستان یا بھارت میں کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ بادشاہ خان نے اس ریفرینڈم کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا اور بائیس جون کو بنوں میں پشتون قبائلی مشران کا ایک جرگہ بلا لیا۔ جس میں ان رہنماؤں نے اس منصوبے کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کیا اور انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ انہیں افغانستان کے ساتھ شمولیت کا اختیار دیا جائے یا آزاد پختونستان کے قیام کے لئے بندوبست کیا جائے۔ انگریزوں نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا اور یوں خیبر پختونخوا پاکستان کا حصہ بن چکا۔

سرخ پوش

ابتدا میں تنظیم کے کارکنوں کے لیے کوئی خاص لباس مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ چونکہ کارکنان سفید رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے جو بہت جلد گندے ہو جاتے تھے۔ یوں اسی وجہ سے سرخ رنگ کے لباس کو کارکنان کے لئے یونیفارم کے طور پر اپنایا گیا۔ اس رنگ کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا کہ یہ سامراج مخالف اور انقلابی تنظیموں کے جھنڈے کا رنگ تھا۔

باچا خان جواہر لعل نہرو کے ساتھ خیبر پختونخوا کے دورے کے دوران

خدائی خدمت گار قیام پاکستان کے بعد

آزادی کے صرف ایک ہفتہ بعد 22 آگست کو خیبرپختونخوا میں خدائی خدمتگار کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور یہ الزام لگایا گیا کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں۔ باچاخان پاکستان کے دستور ساز اسمبلی کے رکن بنے جہاں انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں واضح کیا کہ گویا ہم تقسیم ہندوستان کے منصوبے کے خلاف تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد معاملہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اب ہم سب اس ملک کے مشترکہ باسی ہیں۔ باچا خان اور قائد اعظم کے مابین ملاقات ہوئی تو قائداعظم نے آپ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

حالات جلد تبدیل ہوئے اور پختونخوا کے کشمیری وزیراعلی عبدالقیوم خان نے قائداعظم کے کانوں کو خدائی خدمتگار کے خلاف بھر دیا۔ جون 1948 کو باچا خان، ولی خان سمیت سینکڑوں خدائی خدمتگار کارکنان کو گرفتار کرکے تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی اور جب ان گرفتاریوں کے خلاف بابڑہ، چارسدہ کے مقام پر پرامن احتجاج کے لیے لوگ جمع ہونے لگے تو پاکستان کی اس صوبائی حکومت نے ظلم میں انگریزوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ سینکڑوں معصوموں کو خون میں نہا کر فخریہ طور پر کہا گیا کہ یہ انگریزوں کی نہیں عبدالقیوم خان کی حکومت ہے۔ وزیراعلیٰ نے چوک یادگار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں خدائی خدمتگاروں کا نام و نشان مٹا دوں گا، خدائی خدمتگاروں کا نشان تو نہ مٹ سکا البتہ عبدالقیوم خان کو صرف منفی الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔

بادشاہ خان کو تقریباً سات سال تک جیل میں رکھا گیا اور جب ان کو بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا تو پاکستان کے حالات تبدیل ہو چکے تھے۔ بابا نے عملی طور پر اپنے آپ کو سیاست سے الگ کر دیا۔ دوسری طرف 1955 میں ون یونٹ سسٹم رائج کیا گیا تو ڈاکٹر خان صاحب صوبہ مغربی پاکستان کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے۔ جبکہ بابا کی جگہ انکے بیٹے ولی خان نیپ کے پلیٹ فارم سے پاکستانی سیاست میں متحرک ہوئے۔ آج پختونوں کے لئے قومی سطح پر ایک اور خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔

پاکستان مسلم لیگ ن، کیا صحیح کیا غلط

جمعیت علمائے اسلام کی پاکستانی سیاست میں کردار کی تاریخ

تصوف کسے کہتے ہیں؟ تصوف کی دنیا کے بارے میں جانیے

5 thoughts on “خدائی خدمتگار تحریک کی تاریخ اور اہمیت”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *