حکومت کی ساخت اور کام ؛ پاکستانی سیاسی نظام کے آئینے میں

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

ریاست کے چار لازمی عناصر ہوتے ہیں جن میں اگر ایک بھی موجود نہ ہو تو ریاست وجود میں نہیں آسکتی۔ یہ چار عناصر علاقہ، آبادی، حکومت اور اقتدار اعلیٰ ہوتے ہیں، یعنی کہ علاقہ کے بغیر ریاست کا وجود ناممکن ہے۔ اگر علاقہ موجود ہو اور وہاں انسان نہ ہو، یا نظام چلانے کے لیے وہاں حکومت قائم نہ ہو یا حکومت خود مختاری اور آزادی کے حامل نہ ہو، تو بھی ریاست کا قیام ناممکن ہے۔ یہی حکومتی خود مختاری اور آزادی اقتدار اعلیٰ کہلاتی ہے۔

حکومت

حکومت ریاست کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ اگر ریاست ایک گاڑی ہے تو حکومت اس کا ڈرائیور۔ ریاست مشینری ہے تو حکومت اس کا انجن۔ جیسا کہ ہر ادارہ کے اندر ایڈمنسٹریشن کا ایک حصہ ہوتا ہے حکومت ریاست کا ایڈمنسٹریشن چلانے والا ادارہ ہوتا ہے۔

حکومت کی شاخیں

ارسطو کو علم سیاسیات کا باپ کہا جاتا ہے، اس نے آج سے 2300 سال قبل حکومت کے اعضاء کی تعداد تین بتائی تھیں، جو آج تک نہ دو ہوسکی اور نہ چار۔ حکومت کی یہ تین شعبے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کہلاتی ہیں۔ ہر شعبے کی اپنی ذمہ داری اور کام ہے۔

مقننہ

مقننہ قانون ساز ادارہ ہوتا ہے جن کی بنیادی ذمہ داری ملک کے لیے قوانین بنانا ہوتا ہے پاکستان میں مقننہ کو پارلیمان، ایران میں مجلس شوریٰ اور امریکا میں کانگریس کہا جاتا ہے ۔ پاکستان میں مقننہ (پارلیمان) دو ایوانوں ایوان بالا اور ایوان زیریں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایوان بالا کو سینٹ اور ایوان زیریں کو قومی اسمبلی کہا جاتا ہے۔

سینٹ آف پاکستان

سینٹ میں کل ممبران کی تعداد 96 ہے۔ جن میں ہر صوبے سے 23-23 سینیٹر منتخب ہوتے ہیں جبکہ چار سینیٹر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ ہر صوبائی اسمبلی کے اراکین اپنے صوبے کے سینیٹر حضرات کو ووٹ کے ذریعے منتخب کراتے ہیں۔ سینیٹر کے عہدے کا معیاد چھ سال ہوتا ہے۔ سینٹ کے پہلے اجلاس میں ایوان کی کاروائی چلانے کے لیے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ صدر پاکستان کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینٹ قائم مقام صدر ہوتا ہے وزیراعظم اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ ایک چوتھائی وزرا سینیٹ سے نامزد کریں۔

قومی اسمبلی آف پاکستان

قومی اسمبلی میں کل ممبران کی تعداد 342 ہے جن میں 272 جنرل نشستیں ہوتی ہیں جن کا انتخاب عوام براہ راست اپنے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں جبکہ 60 نشستیں خواتین اور 10 اقلیتوں کے لیے مختص ہوتی ہیں، جو متناسب نمائندگی کے اصولوں کے مطابق اسمبلی میں جنرل سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں آبادی کے لحاظ سے نشستوں کی تقسیم ہوتی ہے۔ پنجاب کی نشستوں کی تعداد 183، سندھ کی 75، خیبر پختونخوا کی 55 اور بلوچستان کی 17 ہیں۔

قومی اسمبلی کا معیاد پانچ سال ہوتا ہے۔ جو پہلے اجلاس کے پہلے دن سے شروع ہوتا ہے۔ اسی دن سپیکر و ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوتا ہے۔ عموماً دوسرے دن کی اجلاس میں وزیراعظم کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے تین چوتھائی وزرا کا تعلق قومی اسمبلی سے ہوتا ہے۔

پارلیمنٹ آف پاکستان بلڈنگ

قانون سازی

قانون سازی سے متعلق دونوں ایوانوں کا اختیار و کام مساوی طور پر تقسیم ہے۔ قانونی مسودہ سب سے پہلے کس ایوان میں پیش کرنا ہوتا ہے اس بات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہاں ایک تکنیکی نقطہ یہ ہے کہ اگر ایک ایوان بل کو پاس کریں اور دوسرا مسترد، تو پھر کیا ہو گا؟ آئین کے مطابق اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا اور اسی بل پر دوبارہ بحث کرانے کے بعد ووٹنگ کے ذریعے بل کی منظوری یا مسترد ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ایکٹ آف پارلیمنٹ صدر کی منظوری کے ساتھ قانون بن جاتا ہے۔ صدر کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ پارلیمان کے پاس کردہ بل کو مسترد کر دیں۔ البتہ اگر وہ بل کے متن سے متفق نہ تو اپنی سفارشات کے ساتھ اسے دوبارہ پارلیمان کو غور کرنے کے لیے بھیج سکتا ہے۔ پارلیمان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ صدر کے سفارشات کو قانون کا حصہ بنائے یا اسے مکمل طور پر مسترد کر دیں۔ صدر دوسری مرتبہ اس قانونی مسودے کو پارلیمان بھیجنے کا مجاز نہیں ہوتا۔

قومی اسمبلی میں سپیکر اور سینٹ میں چیئرمین کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔ وہ ایوان کی کارروائی میں فریق نہیں بن سکتا، ووٹنگ کے دوران اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتا لیکن اگر حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد برابر نکل آئیں تو پھر یہ دونوں حضرات اپنے اپنے ووٹ پول کر سکتے ہیں۔ اور ظاہر بات ہے کہ اسی وقت اس ووٹ کی حیثیت اور اہمیت فیصلہ کن ہوتی ہے۔

انتظامیہ

حکومت کا دوسرا شعبہ انتظامیہ کہلاتا ہے۔ جن کے نام سے ظاہر ہے کہ اس ادارے کا کام ملک کا انتظام چلانا ہوتا ہے۔ اسے اجرائیہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پارلیمان کے بنائے گئے قوانین کو ملک میں جاری یعنی نافذ کرتا ہے۔ اس ادارے کو پاکستان میں وفاقی کابینہ اور امریکہ میں وزارتی کونسل کہا جاتا ہے۔ صدارتی نظام میں اس ادارے کا سربراہ صدر جبکہ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم ہوتا ہے۔

پاکستان کی وفاقی کابینہ

پاکستان میں وفاقی کابینہ کی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ وزیراعظم کابینہ کا سربراہ ہوتا ہے جبکہ کابینہ کے دیگر اراکین وفاقی وزراء، وزیراعظم کے مشیر اور معاونین ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ وفاقی وزرا منتخب افراد ہوتے ہیں جن میں ایک چوتھائی کا تعلق سینٹ اور تین چوتھائی کا تعلق قومی اسمبلی سے ہوتا ہے جبکہ مشیران اور معاونین غیر منتخب افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ امیر مقام پارلیمان کے رکن نہ ہونے کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر کے طور پر وفاقی کابینہ کا حصہ ہے۔

اصل حکومت

چونکہ وفاقی کابینہ ملک کا انتظام چلانے کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے۔ یوں حکومت کے دیگر دو شاخوں مقننہ اور عدلیہ کے مقابلے میں اختیار کا مالک یہ ادارہ ہوتا ہے۔ کیونکہ مقننہ میں اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران کا تو حکومتی کارروائی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا جبکہ عدلیہ کا دائرہ کام اور اختیار تو مکمل طور پر الگ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کو سربراہ حکومت کہا جاتا ہے۔ تمام ریاستی و حکومتی ادارے (علاوہ مقننہ اور عدلیہ کے) وزیراعظم کی زیر نگرانی کام کرتے ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ وزیراعظم کو جواب دہ ہوتے ہیں ۔

وفاقی کابینہ میں وزیر اعظم کی حیثیت

برطانیہ میں وزیر اعظم کو چمکتے ستاروں کے درمیان چاند کا نام دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم اپنی کابینہ کے تمام ممبران نامزد کرتا ہے۔ وہ کسی وزیر یا مشیر کے کام سے مطمئن نہ ہو تو وہ کسی بھی وقت ان کو اپنے عہدے سے برطرف کر سکتا ہے۔ وہ وزراء کو اضافی ذمہ داریاں بھی سونپ سکتا ہے اور وزراء کے درمیان محکموں کو بھی تبدیل کر سکتا ہے۔

عدلیہ

سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد

عدلیہ حکومت کا تیسرا شاخ ہے اور اس کی بنیادی ذمہ داری قانون توڑنے والوں کو سزا دینا ہے۔ ہر ملک کا اپنا ایک عدالتی نظام ہوتا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کے تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ سپریم کورٹ، دوسرا درجہ ہائیکورٹ اور تیسرا درجہ ذیلی عدالتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہوتی ہے۔ جن کی مستقل نشست اسلام آباد اور رجسٹری برانچیں چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں کام کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ ملک کی تمام عدالتی نظام کی نگرانی کرتا ہے اور یہ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے لئے آخری اور اعلیٰ ترین عدالت ہے۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد مقرر نہیں ہوتی، مقدمات کی تعداد کے پیش نظر اسے بڑھایا اور گھٹایا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سب سے بڑے جج کو چیف جسٹس آف پاکستان کہا جاتا ہے۔ چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرتا ہے۔ یہ تقرری سنیارٹی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ سینئر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ہائیکورٹ سے لیے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں تقرری کے وقت ہائی کورٹ کے جج کے لیے اس نامزدگی سے انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔

ہائی کورٹ

پاکستان میں ہائی کورٹس کی تعداد پانچ ہیں۔ ہائیکورٹ صوبے کا اعلیٰ ترین عدالت ہوتا ہے۔ ذیلی عدالتوں کے فیصلے سے غیرمطمئن فریق ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں سے غیر مطمئن افراد پچھلے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ میں وہ شخص جج بن سکتا ہے جس نے ذیلی عدالتوں میں جج اور وکیل دونوں کے طور پر کام کیا ہو۔

ذیلی عدالتیں ضلع اور تحصیل کی سطح پر قائم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی قسم کی عدالتیں ہوتی ہیں مثلاً لیبر کورٹ، نیب عدالتیں اور فوجی عدالتیں وغیرہ۔

کسی بھی ملک کے سیاسی نظام کی کامیابی کا دارومدار حکومت کے ان تین شعبوں کا اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر ایمانداری سے کام کرنے پر ہوتا ہے۔ اگر یہ تینوں شعبے ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنا شروع کر دیں تو اس کا نتیجہ ریاست کی تباہی کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔

لیڈر کون ہوتا ہے؟ لیڈر اور سیاستدان یا لیڈر اور منیجر میں کیا فرق ہوتا ہے۔

فسطائیت (فاشزم) کیا ہوتا ہے؟ کونسی ریاست فسطائی ریاست ہوتی ہے؟

پشتو موسیقی کی مختصر تاریخ

4 thoughts on “حکومت کی ساخت اور کام ؛ پاکستانی سیاسی نظام کے آئینے میں”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *