جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت: کیا اچھا کیا برا

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جنرل پرویز مشرف کو بری فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ اگر چہ وہ جی ایچ کیو کی طرف سے بھیجے گئے جنرلز کے ناموں میں سب سے جونیئر تھے۔ نواز شریف پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیراعظم تھے جن کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی۔ اس لئے اس نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے صدر سے قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس لے کر آئین ان کو اپنی اصل شکل میں بحال کرایا۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ اسٹبلشمنٹ نواز شریف سے وزیراعظم کے طور پر تمام اختیارات ہاتھ میں لینے کی وجہ سے خوش نہیں تھی۔

اسی دوران جنرل پرویز مشرف نے بھارتی کشمیر کے ضلع کارگل پر حملہ کیا۔ جنگ بندی کے بعد آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہوئے جس کا نتیجہ 12 اکتوبر 1999 کو ملک میں چوتھی مرتبہ فوجی حکومت کے قیام کی شکل میں نکلا۔

عام انتخابات

جنرل مشرف نے 2002 میں جنرل الیکشن کا انعقاد کیا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدان میر ظفر اللہ خان جمالی وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر ایک سال بعد جنرل مشرف اور وزیراعظم جمالی کے درمیان اختیارات کے استعمال پر اختلاف کی صورت میں وزیراعظم جمالی اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین 45 دن کے لیے وزیراعظم بنے۔ اسی دوران ایک ماہر معیشت شوکت عزیز کو بیرون ملک سے درآمد کیا گیا اور اٹک (پنجاب) کے ایک حلقے سے رکن قومی اسمبلی بنا کر وزیراعظم بنایا گیا اور پھر اگلے تین، چار سال تک وہ پاکستان کے وزیراعظم رہے۔

سترہویں ترمیم

دو ہزار تین کے اواخر میں جنرل صاحب اپوزیشن رہنماؤں کو اس ترمیم کے پارلیمان سے منظور کروانے کے لئے رام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس ترمیم کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اب جنرل صاحب صدر کے طور پر کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کر سکتے تھے۔

معاشی ترقی

چونکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں عارضی طور پر سیاسی استحکام آیا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوا۔ 1990 کی دہائی میں اوسط معاشی شرح نمو 4.5 فیصد تھی جو اب 6 فیصد سے اوپر چلی گئی۔ 1999 میں ٹوٹل برآمدات کی حجم 7 ارب ڈالر تھی جو 2008 میں 18 ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔ نواز شریف دور میں شروع کیے گئے کئی میگا پراجیکٹس مثلا گوادر پورٹ، پشاور اسلام آباد موٹروے، غازی بروتھا بیراج وغیرہ مکمل کیے گئے اور کئی نئے ترقیاتی منصوبے بھی لانچ کیے گئے۔ سب سے زیادہ ترقی ٹیلی کام اور موٹر سائیکل انڈسٹری نے کی۔ اس دور کی نمایاں پیش رفت پرائیویٹ میڈیا چینلز کا آغاز تھا۔ یہی میڈیا بعد میں آئین کی معطلی اور جمہوریت کی بحالی کے معاملات میں جنرل صاحب کی خلاف کھڑی ہوئی جو ایک قابل ستائش اقدام تھا۔

وزیراعظم شوکت عزیز

تعلیمی ترقی

جنرل صاحب کے دور میں بنیادی تعلیم میں پیش رفت ہوئی یا نہیں مگر اعلیٰ تعلیم کی ترقی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آپ ہی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نام سے اعلی تعلیم کی ترقی کیلئے ادارہ بنایا اور ممتاز سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمن کو اس کا پہلا چیئرمین مقرر کیا۔ مشرف دور کے اختتام پر ملک میں یونیورسٹیوں اور پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔

بلدیاتی حکومتوں کا قیام

پاکستانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ جمہوری حکومتیں کبھی بھی بلدیاتی حکومتوں کے قیام میں مخلص نہیں رہی۔ جنرل مشرف نے اپنے پیش روؤں جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کی طرح بلدیاتی انتخابات کرا کے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا۔ 2001 اور 2005 میں دو مرتبہ ان انتخابات کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بلدیاتی حکومت کے تین درجے ہوتے تھے ضلعی کونسل، تحصیل کونسل اور یونین کونسل۔

خارجہ تعلقات

نائن الیون حملے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملے کا منصوبہ بنایا تو امریکی وزیر دفاع کولن پاول نے پاکستان کی مدد لینے کی خاطر جنرل مشرف کو فون کال کیا۔ جنرل صاحب نے سیکنڈ ضائع کیے بغیر امریکی عہدیدار کو ہاں میں جواب دے دیا۔ یہ جنرل صاحب کا ایک انتہائی غلط اقدام تھا کہ سیاسی و عسکری قیادت سے مشورہ کیے بغیر خارجہ پالیسی کو 180 زاویے سے موڑا گیا کہ یا تو پاکستان افغانستان کے طالبان حکومت کا سرپرست تھا اور یا ان طالبان کے خلاف امریکا کا ساتھی بنا۔ اس اقدام سے دنیا کو یہ پیغام بھی مل چکا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے کی صورت میں پاکستان کو خطیر فوجی اور معاشی امداد کی شکل میں عارضی طور پر فائدہ ہوا۔ مغرب میں پاکستان کو قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا گیا مگر آج ہم اس پرائے جنگ کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے پیچھے دیکھتے ہیں تو صرف پچھتاوا ہی کر سکتے ہیں۔

جنرل صاحب نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ پہلی مرتبہ پاکستان کے تعلقات قائم کئے تو کئی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو مرتب و بحال کیا گیا۔ چین اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات روایتی ڈگر پر چلتے رہے ۔

قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن

دو ہزار چار میں پہلی مرتبہ قبائلی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا اور پھر 2014 تک شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب غضب تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان عسکری کارروائیوں کی وجہ سے اب پاکستانی فوج دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں عملی طور پر شریک ہوئی۔

امریکی ڈرون حملے

دو ہزار چار میں امریکہ نے پہلی مرتبہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیر ستان میں ڈرون طیارے سے ایک میزائل داغا، جس سے طالبان کمانڈر نیک محمد کی موت ہوئی۔ اس کے بعد یہ ڈرون حملے 10 سال تک جاری رہے۔ حملوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں معصوم شہری بھی نشانہ بنے۔ امریکی ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری پر ایک سوالیہ نشان بن چکے تھے۔ یہ ریاست پاکستان کے لئے گلے کی ہڈی بن چکی تھی جن کو نہ نگلنا آسان تھا اور نہ واپس پھینکنا ۔

ڈرون حملوں کے حوالے سے جنرل مشرف مکمل طور پر ذمہ دار تھے۔ اگر اس نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی تو یہ بھی غلط تھا اور اگر اس نے اجازت نہیں دی تھی اور امریکا خود سے حملے کر رہا تھا تو پھر تو ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے یہ انتہائی شرم کی بات بھی تھی۔

پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنا

جنرل صاحب نے اپنی کتاب “ان دی لائن آف فائر” میں خود اس بات کی اعتراف کی تھی کہ اس نے 500 سے زائد لوگوں کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کردیا تھا جبکہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں 500 کے بجائے چار ہزار لوگوں کا ذکر موجود ہے۔

پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہوا

چونکہ اب پاکستان اور طالبان کے مابین ایک خانہ جنگی کی صورتحال بن چکی تھی اس لیے طالبان نے جوابی حکمت عملی میں خودکش حملوں کے ذریعے عوامی مقامات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ جنرل صاحب کے آخری سال، دو میں پاکستان کا کوئی شہر بم دھماکوں سے محفوظ نہ رہ سکا یہاں تک کہ حساس مقامات بھی نہیں۔ پورا ملک خصوصاً خیبرپختونخوا میدان جنگ بن چکا۔ پاکستان کی نابالغ پرائیویٹ میڈیا چینل اپنے ذاتی فائدے کے لیے خود کش حملوں کی لائیو کوریج کر کے اپنے ملک کو پوری دنیا میں بدنام کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی حکومت کو بیرونی دنیا میں اپنی ساکھ کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے۔

نواب اکبر بگٹی

اکبر بگٹی قتل اور بلوچستان بدامنی

دو ہزار چھ میں ایک فوجی کاروائی کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی جاں بحق ہوچکے۔ بگٹی کی قتل بلوچستان میں بدامنی کے آگ کو پھونک مارنے کے مترادف ثابت ہوا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پاکستانی وفاق اور ریاست کے خلاف مخالف جذبات انتہا پر پہنچ چکے۔ یہاں تک کہ صوبے کے بیشتر علاقوں میں پاکستانی جھنڈے کو بلند کرنے اور قومی ترانے کے گانے پر غیر اعلانیہ پابندی کی سی صورتحال پیدا ہو چکی۔ کئی مقامات پر مسافر بس کو روک کر ان میں سوار بےگناہ پنجابیوں کو نیچے اتار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ۔

دو ہزار سات جنرل صاحب کے لئے اچھا ثابت نہ ہوا

اسی سال گرمیوں میں پہلے فوجی حکومت نے اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے علماء و طلباء کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ حکومت کا الزام تھا کہ مدرسہ کے منتظمین دارالحکومت میں ریاست کے اندر ریاست بنانے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر چہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا تھا مگر جنرل صاحب نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری

جنرل صاحب کا دوسرا غلط اقدام عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ تھا۔ آپ نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو اپنے عہدے سے برطرف کردیا۔ جولائی میں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو اپنے عہدے پر بحال کیا تو تین نومبر 2007 کو جنرل صاحب نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج صاحبان کو گھر بھیج دیا یہی نہیں بلکہ آئین کو معطل کر دیا گیا۔ آئین کی معطلی کی وجہ سے بعد میں جنرل صاحب پر خصوصی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور جسٹس وقار سیٹھ نے جنرل مشرف کو ڈی چوک میں پھانسی کی سزا سنائی۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی وطن واپسی

اسی سال ہی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اپنی جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس لوٹے۔ یاد رہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان 2006 میں لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جن کے مطابق اگلے انتخابات میں جو پارٹی بھی حکومت بنائے گی، اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ان کو پانچ سال پورا کرنے دیئے جائیں گے۔ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں انتخابی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔

نواز شریف اور بینظیر بھٹو

اگلے سال فروری 2008 میں انتخابات منعقد ہوئے، شہید بی بی کی پارٹی نے میدان مار لیا۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو دونوں بڑی پارٹیوں کی طرف سے مشرف پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ بڑھایا گیا۔ یوں اگست میں جنرل صاحب نے صدارت کی کرسی چھوڑ دی اور 6 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں زرداری ملک کے نئے صدر منتخب ہوئے۔

نواز شریف بمقابلہ بے نظیر بھٹو: 1990 کی دہائی کو کیوں ضائع شدہ دہائی کہا جاتا ہے؟

پاکستان میں پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے پارلیمان کمزور کیوں ہے؟

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی دور حکومت: کیا اچھا کیا برا

1 thought on “جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت: کیا اچھا کیا برا”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *