جنرل ضیاء الحق کا ہنگامہ خیز دور حکومت: کیا اچھا کیا برا

مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)

انیس سو ستتر میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے خاتمے کے بعد عام انتخابات منعقد ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے کے لئے پاکستان نیشنل الائنس کے نام سے نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا تھا مگر پی این اے نے قومی اسمبلی کے 200 میں سے صرف 36 نشستیں حاصل کیں جبکہ پیپلز پارٹی 155 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ بھٹو حکومت کے خلاف دھاندلی کا الزام لگا کر ان نو جماعتی اتحاد نے تحریک شروع کیا جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ اس سیاسی انتشار کو جواز بناتے ہوئے بری فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو بھٹو حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا اور حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ جنرل صاحب نے تین ماہ کے اندر اندر نئے انتخابات کے ذریعے حکومت کے قیام اور اقتدار کی منتقلی کا وعدہ کیا مگر یہی انتخابات پھر تین ماہ کے بجائے آٹھ سال بعد منعقد ہوئے اور وہ بھی غیر جماعتی۔

سیاست

جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر دیا اور دو سال بعد قتل کی ایک سازش کے کیس میں ملک کے اس پہلے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما اور بھٹو خاندان کے افراد کو یا تو جیلوں میں ڈال دیا گیا یا گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی سربراہی پہلے نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو کے ہاتھ میں آ گئی۔ جیلوں سے رہا ہونے کے بعد بھٹو فیملی کے اکثر لوگ جلاوطنی اختیار کر گئے۔ 1986 میں بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آنے کا اعلان کیا تو وطن واپس پہنچنے پر ان کا ایک تاریخی استقبال کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کی بحالی کی تحریک کا اعلان کیا۔ اسی دوران بے نظیر بھٹو یا جیل میں ہوتی یا آمریت کے خلاف سڑکوں پر۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں ایک نعرہ مقبول ہوا کہ “بندوقوں والے ڈرتے ہیں اک نہتی لڑکی سے”۔

بے نظیر بھٹو (فائل فوٹو)

دوسری طرف اسی دور میں 1984 میں کراچی میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جو بہت جلد فوج کی آشیرباد سے قومی سطح کی سیاست میں داخل ہوچکی اور پھر اسی جماعت نے اگلے دو، تین دہائیوں تک کراچی کا امن و امان تباہ کرکے رکھا۔

ضیاء دور حکومت میں پنجاب کے ایک صنعتکار اور سرمایہ دار گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان نواز شریف کی سیاست میں انٹری ہوئی اسے پہلے پنجاب کابینہ میں ایک وزیر کے طور پر شامل کر دیا گیا اور جب 1985 میں انتخابات ہوئے تو نواز شریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلی بن چکے۔ نواز شریف جنرل صاحب کو اپنا روحانی باپ قرار دیتے تھے۔ اگلے انتخابات میں وہ ایک مرتبہ پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور بعد میں تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہوئے۔

معیشت

معاشی میدان میں جنرل ضیاءالحق کی خوش قسمتی روس افغان جنگ اور پاکستان کا اس جنگ میں کردار تھا جس کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے تھے اور اس گیارہ سالہ دور میں حکومت کو فوجی ومعاشی امداد کی مد میں اربوں ڈالر فراہم کیے گئے۔ کئی یورپی ممالک اور مالیاتی اداروں نے پاکستان کو تھوڑا بہت قرضہ بھی معاف کیا۔ بھٹو دور میں شروع کیے گئے کئی منصوبے مثلا قراقرم ہائی وے، پاکستان سٹیل ملز مکمل کیے گئے۔ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور میں معاشی شرح نمو سالانہ اوسطاً 6 فیصد رہی جو بھٹو دور کے چار فیصد اور اگلے دہائی (نوے کی دہائی) کے چار یا پانچ فیصد سے زیادہ رہی۔ بے روزگاری اور مہنگائی بھی اسی عرصہ میں قابو میں رہی۔

جنرل ضیاء الحق

خارجہ پالیسی

جنرل ضیاءالحق کی پوری خارجہ پالیسی افغان جنگ کے ارد گرد گھومتی رہی اسی جنگ میں روس کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرنے کی وجہ سے پاکستان امریکہ اور یورپ کے آنکھوں کا تارا بنا رہا۔ دوسری طرف عالم اسلام میں افغان جہاد کی وجہ سے جنرل صاحب کو ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہو چکا تھا۔ حکومت نے 1980 میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا اس اجلاس میں شریک تمام رہنماؤں نے روس افغان جنگ میں جنرل صاحب کے کردار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

امریکہ نے اربوں ڈالر کی معاشی و فوجی امداد مہیا کی تو جنرل ضیاء الحق نے امریکی حکومت کو صاف صاف کہہ دیا کہ ہمیں مونگ پھلی نہیں ہمیں ایف 16 چاہئیے۔ امریکی حکومت نے نہ چاہتے ہوئے مجبوراََ پاکستان کو یہ جدید ترین لڑاکا طیارے فراہم کیے جن کی وجہ سے پاکستان کو بھارتی فضائیہ پر برتری حاصل ہوئی۔

پاکستان نے 35 لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دے کر افغان عوام کے دل جیت لئے۔

صدر ضیاء کے آخری دو سالوں میں بھارت کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے۔ مگر جنرل صاحب کے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت کا ہنگامی دورہ کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ جس نے بھارتی حکومت اور میڈیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ واپسی میں نجانے صدر صاحب نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے کان میں کیا کہہ دیا کہ بھارتی حکومت سرحدوں سے فوج ہٹانے پر مجبور ہو چکی۔ جنرل صاحب کے اس شاطر سفارتکاری کو “کرکٹ ڈپلومیسی” کا نام دیا گیا۔

نفاذ اسلام کی طرف پیش رفت

اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں نفاذ اسلام کا سب سے زیادہ کام جنرل ضیاء کے دور حکومت میں ہوا مگر دوسری جانب سے سیکولر اور لبرل طبقے کی طرف سے جنرل صاحب پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے اسلام کے نام پر بڑی مہارت سے اور ایک طویل عرصہ تک مذہبی کارڈ کھیلا جو صرف اور صرف اس کے اپنے ذاتی فائدے کے لیے تھا مثلاً کہ روس افغان جنگ میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو جہاد کے نام پر شامل کیا گیا جو دراصل امریکی جنگ تھی۔ جس سے اگر چہ ملک کو مختصر مدت کے لیے کچھ فائدے ہوئے مگر طویل مدتی طور پر بہت زیادہ نقصان ہوا۔ یہ شدت پسندی، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے زہر اس جنگ کے بطن سے پیدا ہوئیں جو آج بھی معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ پاکستان ایک امریکی اڈا بن کر رہ گیا۔ اسی طرح جنرل صاحب پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ شیعہ برادری کے خلاف ان کے سخت رویہ اور اقدامات کی وجہ سے ملک میں فرقہ پرستی کی لعنت کو بڑھاوا دیا گیا۔ لیکن دوسری جانب صدر صاحب کے ہاتھوں وفاقی شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل، خواتین کے لیے پہلی مرتبہ الگ یونیورسٹی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے قیام اور بلا سود بینکاری کے آغاز جیسے کارناموں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

صدر ضیا الحق اور وزیراعظم جونیجو کے مابین اختلافات

انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان محمد خان جونیجو کو ملک کا وزیراعظم بنایا گیا۔ اس انتخابات سے ایک سال پہلے ایک متنازع ریفرنڈم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق نے اپنے آپ کو اگلے پانچ سال کے لیے صدر منتخب کرایا تھا۔ چونکہ وزیراعظم جونیجو ایک جمہوری اور اصول پسند سیاستدان تھے یوں اس نے جلد ہی سیاسی جماعتوں کی بحالی کا اعلان کیا۔ یہی نہیں بلکہ صدر صاحب سے مارشل لاء اٹھانے پر بھی بات کی۔ صدر ضیا آٹھویں ترمیم کے ذریعے اسمبلی توڑنے کا اختیار اپنے پاس رکھنے کے شرط پر مارشل لاء اٹھانے پر راضی ہوئے۔ یوں اس شرط کو پورا کر کے مارشل لاء اٹھایا گیا۔ وزیراعظم جونیجو نے دو مرتبہ کابینہ میں ردوبدل کر دیا اور صاحبزادہ یعقوب کو وزیر خارجہ کے عہدے سے برطرف کرکے یہ وزارت اپنے پاس رکھ لی۔ ان اقدامات سے ضیاء الحق سخت ناراض ہوئے۔

افغان جہاد پر بھی دونوں رہنماؤں کے مؤقف میں واضح اختلاف سامنے آیا پہلے تو وزیراعظم جونیجو نے جنیوا معاہدے پر قومی رہنماؤں کی رضامندی لینے کے خاطر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی۔ جس میں پیپلز پارٹی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ وزیراعظم جونیجو جلد از جلد جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے اور افغان جنگ کے خاتمے کی کوشش میں تھے جبکہ صدر ضیاءالحق جنیوا معاہدے سے پہلے افغانستان میں ایک قومی حکومت اور معاہدے میں افغان مہاجرین کو شامل کرنے کے حق میں تھے۔ ان اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ 29 مئی 1988 کو جب وزیراعظم کوریا کے دورے سے وطن واپس پہنچے تو صدر صاحب نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے حکومت کو برخاست کر دیا اور اگلے تین ماہ میں نئے انتخابات منعقد کرنے کا اعلان کیا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 17 اگست 1988 کو جب جنرل ضیاءالحق، امریکی سفیر اور سول و ملٹری بیورو کریسی کے کئی بڑے افسران سمیت بہاولپور ائیرپورٹ سے طیارہ میں پرواز کر گئے تو جہاز کے اندر رکھا گیا بم پھٹ گیا اور جہاز میں سوار تمام 30 افراد جاں بحق ہوچکے۔ یوں ملک پر سب سے طویل عرصہ تک حکمرانی کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے ہنگامہ خیز دور کا خاتمہ ہوا۔ آمریت کی طویل رات کے بعد جمہوریت کی نئی صبح طلوع ہوئی اور وہی پیپلز پارٹی حکومت میں آئی جس کے خاتمے کے لئے جنرل صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا تھا۔

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی دور حکومت: کیا اچھا کیا برا

پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ اول

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *