مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

آج کی دنیا میں تقریبا دو سو ممالک ہیں۔ ہر ملک کا سیاسی نظام دوسرے ملک سے مختلف ہے۔ کہیں بادشاہت ہے تو کہیں آمریت، کہیں جمہوریت ہے تو کہیں کوئی دوسری طرز حکومت۔ مثلا کہ افغانستان میں قائم طالبان حکومت خود کو اسلامی خلافت کی ایک نئی شکل قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین و دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ طرز حکومتوں میں جمہوریت سب سے بہتر ہے۔ کیونکہ جمہوریت کی بنیاد انسانی حقوق، شخصی آزادی، شہری مساوات، عدلیہ کی آزادی، قانون کی حاکمیت، میرٹ کی بالادستی اور فلاحی و عوامی حکومت پر ہوتی ہے۔
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں عوام انتخابات میں اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ حکومت کا ایک معیاد مقرر ہوتا ہے۔ جسے پورا کرنے کے بعد یہی عوامی نمائندے دوبارہ ووٹ لینے کے لئے عوام کے در پر جاتے ہیں اور اگر عوام باشعور ہو تو وہ پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ گویا کہ حکومت اپنی کارکردگی کے بارے میں عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ جواب دہی کا یہ نظام نہ تو بادشاہت میں موجود ہوتا ہے نہ آمریت میں۔ بادشاہت میں تو حکومت ایک خاندان کے پاس ہوتی ہے۔ جبکہ آمریت میں ایک شخص یا ادارہ طاقت کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کرتا ہے اور جب تک چاہے طاقت کے ذریعے حکومت کرتا ہے۔

چینی جمہوریت
اب ہر ملک کی اپنی ایک جمہوریت ہے۔ جیسا کہ چین میں ریاست اور سیاست صرف ایک سیاسی جماعت چائنیز کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے ہاتھ میں ہے۔ کسی بھی شہری کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ چینی کمیونسٹ حکومت اور سی سی پی پر تنقید کرے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کمیونسٹ پارٹی کی آمریت ہے۔
روس میں جمہوریت
روس میں پچھلے 22 سالوں سے ولادیمیر پوٹن برسر اقتدار ہے۔ گویا کہ وہ ہر بار انتخابات ہی کے راستے اقتدار میں آئے ہیں۔ مگر پوٹن کی طرف سے جس طرح آئین میں ترامیم کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دینے اور ریاستی اختیارات کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لینے کا کام سرانجام دیا گیا ہے۔ تو ہم اس کو جمہوری آمریت یا آمرانہ جمہوریت ہی کہہ سکتے ہیں۔
کیا دنیا میں جمہوریت روبہ زوال ہے
امریکہ میں جمہوریت کی حال
کئی برس پہلے تک مغربی ممالک کی جمہوریت کو دنیا کی بہترین جمہوریت تصور کیا جاتا تھا۔ اگر چہ یورپی ممالک میں اب بھی صورتحال بہتر ہے۔ مگر امریکہ جو خود کو جمہوریت کا امام اور چیمپئن تصور کرتا ہے۔ وہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جمہوری اقدار اس قدر پائمال ہوئے کہ دنیا کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا۔ جب ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل (امریکی پارلیمان کی عمارت) پر حملہ کیا۔

بھارتی جمہوریت کی صورت حال
بھارت جو بڑے فخر سے خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ وہاں بھی 2014 سے ہندو انتہا پسند مودی حکومت کے دوران اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا ناروا سلوک ہو رہا ہے اور جس طرح انکو اپنے آئینی حقوق کے استعمال سے محروم کیا جا رہا ہے۔ وہ کسی بھی طرح ایک جمہوری ملک کے شایان شان نہیں ہے۔
تیسری دنیا کے دیگر ممالک
دیگر ایشیائی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار اور سری لنکا میں بھی جمہوریت کا گراف اوپر کی بجائے نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کی حکومت میں نیب کے ذریعے اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنا ہو یا سیاست میں کھلم کھلا گالم گلوج کا استعمال، پارلیمان کی موجودگی میں صدر کی طرف سے درجنوں آرڈیننس کا اجراء یا اپوزیشن کو مکمل نظر انداز کر کے قومی اسمبلی سے ایک ہی دن میں درجنوں قوانین کو پاس کرنا، یہ تمام غیر جمہوری ہتھکنڈے ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی عین اسی طرح یا اس سے بھی برے طریقے کے ذریعے حزب اختلاف کو دیوار سے لگایا گیا ہے۔ میانمار میں تو فوج نے ایک مرتبہ پھر منتخب حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا ہے۔ سری لنکا میں بھی مسلم اقلیت بدھ اکثریت کے نشانے پر ہے۔
امید زندگی ہے، مایوسی کفر ہے۔ اگر چہ دنیا میں جمہوریت روبہ زوال ہے مگر ہم ہر حال میں بہتری کی امید رکھیں گے اور اپنی طرف سے جمہوریت کی بحالی اور بقا کے لیے جو کچھ ہو سکے وہ کریں گے۔
پاکستان میں جمہوریت کی مختصر تاریخ