مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)
جميعت علمائے ہند
پچھلے کئی صدیوں کی تاریخ میں احیائے اسلام کے لئے جو تحریکیں چلائی گئیں ان میں اپنے اثر کے لحاظ سے سب سے کامیاب تحریک دارالعلوم دیوبند کی تحریک تھی۔ دارالعلوم دیوبند صرف ایک مدرسے کا نام نہیں تھا بلکہ ان کی بطن سے ہزاروں مدارس پیدا ہوئے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ان مدارس سے لاکھوں علماء فارغ التحصیل ہوئے اور لاکھوں اب بھی ان میں پڑھ رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم تبلیغی جماعت کی بنیاد بھی دارالعلوم دیوبند کے ایک عالم مولانا محمد الیاس نے رکھی۔
انگریزوں کے زمانے میں دارالعلوم کے بڑوں نے سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کے لیے جمعیت علمائے ہند کے نام سے 1919 میں ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ یہ جماعت آزادی کی تحریک میں پیش پیش رہی۔ نظریے کے لحاظ سے یہ جماعت کانگریس کی قریب اور مسلم لیگ سے دور رہی کیونکہ اس جماعت کے قائدین تقسیم ہند کے خلاف تھے۔ یہی نہیں بلکہ جماعت کے بقول مسلم لیگ کے رہنماؤں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ نماز میں کتنے فرائض ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد کب رکھی گئی
ہندوستان کی آزادی سے دو سال پہلے جمیعت علمائے ہند کے چند اکابرین نے جماعت کی اکثریت سے اپنی راہ جدا کرکے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی۔ کیونکہ شبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں یہ علماء تقسیم ہند کے منصوبے کی حمایت کر رہے تھے۔ شبیر احمد عثمانی جماعت کے پہلے صدر بنے۔ یہی وہ شخص تھے جنہوں نے پاکستان کے قیام کے بعد پہلی بار پاکستانی پرچم کو فضا میں بلند کرکے لہرایا تھا اور آپ ہی نے قائد اعظم کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔

جمعیت علمائے اسلام کے دھڑے
اس کے بعد جمعیت علماء اسلام کئی دھڑوں یعنی سب پارٹیوں میں بٹ چکی۔ جس میں سب سے ممتاز اور بڑا گروپ جمعیت علمائے اسلام (ف) یعنی فضل الرحمٰن گروپ ہے۔ دیگر گروپ جمعیت علماء اسلام (سمیع الحق گروپ)، جمیعت علماء اسلام (نظریاتی) اور جمیعت علماءاسلام (شیرانی) ہیں جبکہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جے یو آئی کا ایک گروپ بنگلہ دیش میں بھی سرگرم ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کا نظام کو اسلامی بنانے کے لیے کردار
انیس سو انچاس میں جمعیت علمائے اسلام کے شبیر احمد عثمانی نے قرارداد مقاصد کا مسودہ تیار کیا تھا جو پاکستان میں اسلامائزیشن کی طرف پہلا قدم تھا۔ 1950 اور 1970 کی دہائیوں میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جو تحریک چلائی گئی تھی ان میں بھی اس پارٹی نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا اور یوں 1974 میں قادیانیوں کو آئین پاکستان کے ذریعے غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ 1973 کے آئین میں بیشتر اسلامی دفعات آئین سازی کے وقت پارلیمنٹ میں مفتی محمود کی سرگرم کردار ادا کرنے کی وجہ سے شامل کیے گئے۔
جمعیت کا انتخابی سیاست میں کردار
قیام پاکستان کے بعد دو دہائیوں تک پاکستانی سیاست میں بائیں بازو کی جماعتیں چھائی رہیں۔ اس دور میں جمعیت علمائے اسلام کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ 1970 اور 1977 کے دونوں انتخابات میں جمعیت نے قومی اسمبلی میں سات، سات نشستیں حاصل کی تھیں۔ 1970 کے انتخابات کے بعد جمعیت نے نیپ کے ساتھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اتحادی حکومت بنائی اور مفتی محمود کو وزیر اعلی خیبرپختونخوا منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد مفتی محمود اور ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمن نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے ووٹ بینک کو اپنی مٹھی میں محفوظ کیے رکھا اور پچھلے کئی انتخابات میں ہر بار قومی اسمبلی میں 10 سے 20 کے درمیان نشستیں حاصل کرتے آ رہی ہیں۔
دو ہزار دو میں دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ ایم ایم اے کے نام سے انتخابی اتحاد بنا کر اکرم درانی کی قیادت میں خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کر دی گئی۔ جبکہ مرکز میں مولانا فضل الرحمن اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ پارٹی کا ووٹ ملک کے کونے کونے میں موجود ہے کیونکہ وفاق المدارس کے تقریباً 25000 مدارس میں لاکھوں علماء اور طلباء جے یو آئی کے نظریاتی کارکن ہیں جو مولانا فضل الرحمان کے ایک اشارے پر ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ جمیعت کے ساتھ ایک مضبوط اسٹریٹ پاور ہے جن کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں کو جے یو آئی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

کامیابیاں
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ جے یو آئی قرارداد مقاصد، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور آئین پاکستان میں شامل دیگر اسلامی دفعات کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح پارٹی کے رہنماؤں پر اب تک میگا کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ سیاسی ماہرین مولانا فضل الرحمان کو موجودہ سیاستدانوں میں ایک قابل اور چالاک سیاستدان مانتے ہیں جو کم نشستوں کے باوجود ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے آرہے ہیں اور ہر بار اپنی سیٹوں کے تناسب سے زیادہ حکومتی وزارتوں اور دیگر اہم عہدیں لینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام اور اسٹبلشمنٹ کا تعلق
پاکستان میں اکثریتی پارٹیاں اور سیاستدان کسی نہ کسی موقع پر اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار بنے ہیں۔ مگر مشرف دور میں مولانا فضل الرحمن کا سترہویں ترمیم اور لیگل فریم ورک آرڈر 2002 کے پارلیمان سے پاس ہونے میں جنرل مشرف حکومت کا ساتھ دینے کے علاوہ پارٹی نے اپنے آپ کو اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچا کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ روس افغان جنگ کے دوران جب تمام مذہبی تنظیمیں روس کے خلاف جہاد کے نام سے جاری امریکہ کے اس جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے تھیں تو جے یو آئی نے پارٹی کی حیثیت سے جنگ سے دوری اختیار کی ہوئی تھی۔
انیس سو نوے میں جب ایوان صدر میں مہران بینک کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کے درمیان (بے نظیر بھٹو کا انتخابات میں راستہ روکنے کے لیے) رقم بانٹی جا رہی تھی تو یہاں بھی جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ کے نرغے سے بچی رہی۔ جے یو آئی کے سٹریٹ پاور کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ بھی پارٹی کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اگر چہ مولانا فضل الرحمان نے کئی مواقع پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل عام تنقید کی ہوئی ہے۔

ناکامیاں
سیاسی ناقدین کی طرف سے پارٹی پر انگلیاں بھی اٹھائی جاتی ہیں۔ مثلا کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ایم ایم اے کے پانچ سالہ دور حکومت میں پارٹی نے کوئی قابل ذکر اسلامی قوانین نہیں بنائیں۔ دیوبند کی وارث کہلانے والی یہ سیاسی جماعت اب ایک موروثی اور خاندانی پارٹی بن چکی ہے جو کہ مکمل طور پر مفتی محمود گھرانے کی گرفت میں ہے۔
پارٹی کارکنان اور رہنماؤں کی جانب سے سیکولر سیاست دانوں کے لیے ہمیشہ سخت رویہ رکھا گیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال خیبرپختونخوا کے اندر پارٹی کی جانب سے ماضی میں باچا خان، ولی خان اور اے این پی کی دیگر رہنماؤں کو اسلام مخالف قرار دینا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ پروپیگنڈا کبھی بھی یکطرفہ نہیں رہا بلکہ اے این پی کارکنان کی طرف سے بھی مذہبی رہنماؤں اور علما کے خلاف اکثر نازیبا الفاظ استعمال ہوتے رہیں ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف، وہ پارٹی جس نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا
پاکستان مسلم لیگ ن، کیا صحیح کیا غلط
Bilkul sir gee ,Mufti Mehmood saib hazeem insan hu ao khudai khedmatghar Bacha Khan hum zabardast insan teer shawai dai .Insan na ghaltee kege umeed dai che ALLAH ba hee maaf ke khu afsoos che mung khalaq he na maaf kao .ALLAH de zmung pa haal raham okee.