پاکستان کی 75 سالہ کامیابیوں پر ایک نظر

مصنف : عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)

آٹھ لاکھ اکیاسی ہزار مربع کلومیٹر خشکی اور دو لاکھ 90 ہزار مربع کلومیٹر سمندری رقبے پر محیط پاکستان ایک مسلم اکثریتی جنوبی ایشیائی ملک ہے۔ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے وجود میں آنے والے اس مملکت کے سامنے کئی بڑے مسائل تھے۔ قوموں کی زندگی میں مشکلات پیش آتے رہتے ہیں۔ “للکار اور جواب” نظریے کے مطابق ان مشکلات یا مسائل کو یا تو مثبت جواب دیا جاتا ہے یا منفی۔ اگر بار بار غلط فیصلے لیے جائے تو قومیں زوال کا شکار ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے پچھلے 75 سال میں پاکستانی فیصلہ سازوں کی طرف سے مثبت سے زیادہ منفی فیصلے اور اقدامات اٹھانے کی وجہ سے آج ہم بے پناہ مسائل میں گھیرے ہوئے ہیں مگر آج کی بلاگ میں جشن آزادی کے دن کی مناسبت سے صرف پاکستان کے منفرد خصوصیات اور کامیابیوں کا ذکر کیا جائے گا۔

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت

موجودہ صدی کو ایشیا کی صدی کہا جاتا ہے کیونکہ چین کی عالمی طاقت بننے کی وجہ سے طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو جائے گا اور پاکستان ایشیا کے عین وسط میں واقع ہے۔

دوسری طرف پاکستان عالمی طاقت چین کے ساتھ مشترکہ سرحد بھی رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان شاہراہ قراقرم کے ذریعے تجارت ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کے اتنے قریب واقع ہے کہ ایک مقولہ مشہور ہوچکا ہے کہ گوادر سے مسقط کی روشنیاں نظر آتی ہیں۔ عربوں کے تیل سے لدے بحری جہاز پاکستانی سمندری حدود سے گزر کر باقی دنیا پہنچتی ہے۔ بحر ہند کے ذریعے دنیا کی نصف سے زائد توانائی کی تجارت ہوتی ہے یہ ایک عام سمندر نہیں بلکہ مصروف ترین تجارتی گزرگاہ ہے۔ اسی سمندر میں تیل و گیس کے وافر ذخائر بھی موجود ہیں۔ مستقبل میں پاکستان چین اور عرب ممالک کے درمیان ایک مختصر ترین گزرگاہ بننے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

پاکستان کو وسطی ایشیا کا دروازہ کہا جاتا ہے۔ وسطی ایشیا خشکی میں گھیرا ہوا علاقہ ہے۔ افغانستان سمیت ان سات ممالک کا اپنا کوئی سمندر نہیں ہے۔ دنیا کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے ان ممالک کے پاس سب سے مختصر راستہ پاکستان ہے مگر اس راہداری کو مکمل طور پر قابل عمل بنانے کے لیے افغانستان میں امن کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی طبعی تقسیم

پہاڑی علاقے

سرزمین پاکستان کی ساخت، بلندی اور خصوصیات ایک جیسی نہیں ہے۔ اس حوالے سے برصغیر ایک ایسا منفرد خطہ ہے جن کا پوری دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں مثلاً دنیا میں ان پہاڑوں کی تعداد 14 ہیں جن کی بلندی آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ ہے اور یہ تمام کے تمام جنوبی ایشیا کے اندر ہیں۔ دنیا کے 30 بلند ترین چوٹیوں میں 13 پاکستان میں ہیں۔ گلگت بلتستان کے اندر ایک مقام پر دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں۔

یاد رہے کہ دنیا کے شمالی و جنوبی کرہ ارض کے بعد سب سے زیادہ برف برصغیر میں موجود ہے۔ پاکستان میں درجنوں ایسے گلیشیر موجود ہے جن کی لمبائی 20 کلو میٹر سے زیادہ ہیں۔ اسی برف سے نکلنے والے خوبصورت چشمے و آبشار دریا بناتے ہیں انہی دریاؤں پر بند باندھ کر نہریں نکالی گئی ہیں۔ پاکستان کا نہری نظام دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ ان دریاؤں سے سیراب ہونے والے میدانی علاقہ کا شمار دنیا کے زرخیز ترین خطوں میں ہوتا ہے۔

صحرائی علاقے

بلند ترین پہاڑی سلسلوں اور سینکڑوں کلومیٹر پر محیط میدانی علاقوں کے درمیان صحرائے تھر، تھل، چولستان اور خاران پر مشتمل متحدہ عرب امارات کے پورے رقبے جتنا ریگستانی علاقہ ہے۔ اس علاقے میں دنیا کے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائر ہے جن کا اندازہ 175 ارب ٹن ہے اور اسے سعودی عرب کے تیل کے مساوی قرار دیا جارہا ہے۔ اس وسیع صحرائی علاقے میں سال کے 365 دن سورج چمکتا رہتا ہے۔ یوں یہ شمسی توانائی کے پیداوار کے لیے موزوں ترین علاقہ ہے۔

سطح مرتفع

سطح مرتفع وہ علاقہ ہوتا ہے جن کی بلندی پہاڑی علاقوں سے کم اور میدانی علاقوں سے زیادہ ہوتی ہے یا جن کی بلندی کہیں زیادہ تو کہیں کم ہو۔ پاکستان میں سطح مرتفع کے دو علاقے ہیں، سطح مرتفع پوٹھوہار اور سطح مرتفع بلوچستان۔ سطح مرتفع پوٹھوہار پنجاب کا علاقہ ہے جہاں کھیوڑا کے مقام پر دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہے جبکہ سطح مرتفع بلوچستان ضلع چاغی کا 34 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا علاقہ ہے۔ یہاں ریکوڈک اور سینڈک کے مقام پر لوہے، تانبے اور سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ریکوڈک منصوبے کے تحت ایک بیرونی کمپنی کے ساتھ کان کنی کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

ساحلی پٹی

پاکستان کی ساحلی پٹی کی لمبائی 1046 کلومیٹر ہے جو ساحل سندھ اور ساحل بلوچستان پر مشتمل ہے۔ بھارت کی سرحد سے ایرانی سرحد تک ایک ہزار سے زائد کلومیٹر پر موجود اس علاقے میں 24 گھنٹے سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ ونڈ پاور پروڈکشن کے لیے بہترین علاقہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت نے یہاں پچاس، پچاس میگاواٹ کے دس، پندرہ منصوبے لانچ کیے ہیں، جن میں کئی فعال ہیں تو کئی تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔

سکھر شہر کے قریب دریائے سندھ کا نظارہ

پاکستان کی آب و ہوا

پاکستان دنیا کے ان چند گنے چنے ممالک میں شامل ہیں کہ جہاں چار موسم پائے جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں گرمیوں میں(جیکب آباد، سبی، تھرپارکر وغیرہ) میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے تو سردیوں میں(سیاچن) میں درجہ حرارت منفی پچاس تک گر جاتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ درجہ حرارت پاکستان میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس متنوع آب و ہوا کا یہ فایدہ ہے کہ سرد پہاڑی علاقے میں خشک پھل، سیب، املوک، آڑو، خوبانی پیدا ہوتے ہیں تو سندھ میں کھجوروں کے وسیع باغات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے آم، کینو اور چاول پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ آب و ہوا کی انسانی زندگی پر اثر ہونے کی وجہ سے ہر علاقے کے لوگوں کی اپنی روایات اور ثقافتیں ہیں اور پورے سال یہی ثقافتی رنگینیاں اور تہوار جاری رہتی ہیں۔

ایک بڑی معاشی منڈی

ہم جب قدرتی وسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں تو پانی، معدنیات، حیوانات و جنگلات کا ذکر کرتے ہیں جبکہ قدرتی وسائل میں سب سے اہم افرادی قوت ہے۔ پاکستان 22 کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے یا دوسرے الفاظ میں دنیا کی پانچویں بڑی معاشی منڈی ہے اگر ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال میں تھوڑا بہت استحکام ہو تو بیرونی سرمایہ کار خود بخود پاکستان کا رخ کریں گے۔

بیرون ملک پاکستانی

پاکستان کی تقریباً ایک کروڑ لوگ روزگار کے سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک میں آباد ہیں۔ سعودی عرب میں 20 لاکھ سے زائد متحدہ عرب امارات میں 16 لاکھ سے زائد اور برطانیہ میں 15 لاکھ پاکستانی آباد ہیں جو ترسیلات زر کی شکل میں سالانہ تیس ارب ڈالر سے زائد زر مبادلہ اپنے ملک بھیجتے ہیں اور اگر اس میں ہنڈی حوالے سے بھیجے گئے رقوم کو شامل کیا جائے تو پھر یہ مجموعہ 45 ارب ڈالر سے زائد بنتا ہے۔

نوجوانوں کا ملک

پاکستان کی آبادی میں 60 سال سے زائد عمر کے لوگ بمشکل 7-8 فیصد ہوں گے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو نوجوانوں کا ملک کہا جاتا ہے۔ نوجوانوں کا انٹرنیٹ پر سرگرم ہونے کی وجہ سے پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا فری لانس مارکیٹ ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد

معاشی ترقی

پچھلے 75 برسوں میں صرف دو مرتبہ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح میں گراوٹ آ چکی ہے جو 1952 میں قحط کی وجہ سے اور 2020 میں کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے تھا۔ ان 75 سالوں کی اوسط سالانہ شرح نمو چار سے پانچ فیصد کے درمیان ہے۔ انتہائی سادہ الفاظ میں کہ پاکستان ترقی کرنے والا ملک ہے مگر بات صرف اتنی ہے کہ پچھلے 30 برسوں میں ایشیا کے کئی ممالک نے ترقی کی شرح میں اضافہ کر کے اسے سات فیصد کے اوپر رکھا جبکہ پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہا یوں ہم خطے کے دیگر ممالک سے معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔

سیاسی بلوغت

اگرچہ آزادی کے بعد سے پاکستان میں سیاسی استحکام کم ہی دیکھا گیا مگر سیاسی انتشار کے دوران بھی کئی بار سیاستدانوں نے بلوغت کا مظاہرہ کرکے ملک و قوم کے لئے کئی کارنامے سرانجام دیے مثلاً ہر بار فوجی حکومت کے دوران جمہوریت نواز سیاستدان جمہوریت کی بحالی کیلئے سرگرم رہے ہیں اگر چہ اس وجہ سے ان کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ان پر تشدد بھی کیا گیا مگر آخر میں یہی باہمت اور با اصول سیاست دان ہی سرخرو ہوئے۔ 1973 کا آئین تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کا بہترین مظہر ہے۔ 2006 میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان میثاق جمہوریت سے ملک کو بعد میں بہت فائدہ ہوا۔ 2015 میں پارلیمنٹ کے متفقہ قرارداد کے ذریعے پاک فوج کو یمن کی جنگ سے دور رکھنے کا فیصلہ بھی ایک بروقت اور صحیح اقدام تھا۔

خارجہ پالیسی کی کامیابیاں

آزادی کے بعد پاکستان امریکی بلاک کا حصہ بنا تو کئی حلقوں کی جانب سے اس پر سخت تنقید ہوئی۔ لیکن اگر ہم باریکی سے جائزہ لیں تو پاکستان نے معاشی اور فوجی امداد کے لیے امریکہ کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ملایا تھا اور امریکہ نے پاکستان کی بھرپور مدد کی تھی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر گروپ فوٹو

بعض لوگ تنقید کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کی غلامی میں رہا ہے اگرچہ اس بات میں وزن ہے مگر پاکستان نے کئی مرتبہ قومی مفاد میں امریکی دباؤ کو پس پشت ڈال دیا ہے مثلاً پاک چین تعلقات یا ایٹمی پروگرام۔ چین کے ساتھ دوستی اور ایٹمی طاقت بننا دونوں پاکستان کی کامیابیاں ہیں۔

2011 سے پاک روس تعلقات کا نئے سرے سے آغاز کرانا اور اسے بہت جلد سٹریٹیجک شراکت داری میں تبدیل کرنا بھی کامیابی ہے۔

اقوام متحدہ کے کئی اداروں میں پاکستان کی شمولیت، سرگرم اور قائدانہ کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے تو اقوام متحدہ کے امن دستوں میں دنیا کے کئی ممالک میں امن کو بحال کرنے میں پاک فوج اور پولیس کے نوجوانوں کی قربانیاں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ ابھی بھی ان امن مشن میں شامل پاکستانی دستہ سب سے بڑا یا دوسرے نمبر پر ہے۔

پچھلے ایک دہائی میں بھارت کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی تعلقات میں تنہا کیا جائے مگر ان کو ہر بار منہ کی کھانی پڑی ہے۔ 2016 میں مودی حکومت نے پاکستان میں منعقدہ سارک کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، یہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان نے بھی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی۔ اسی ہی سال پاکستان نے ای سی او اجلاس کے موقع پر دس ممالک کے سربراہان کو اسلام آباد میں جمع کراکے بھارت کو سفارتکاری کی زبان میں بہترین جواب دیا کہ بھارت کبھی بھی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ویسے کیا اپنے سے چھ گنا بڑے ملک کی بالادستی کے سامنے سر نہ جھکانا کامیابی نہیں ہے؟

مضبوط دفاع

اگر چہ معاشی طور پر پاکستان اپنی صلاحیت سے کئی گنا کمزور ملک ہے لیکن دفاعی لحاظ سے دنیا کے دس مضبوط ترین ممالک میں شامل ہے۔ ایک منظم، تربیت یافتہ اور پیشہ ور فوج رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا واحد ایٹمی طاقت ہے اور یہی خصوصیات وطن عزیز کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیتی ہے۔

نیشنل پاور انڈیکس کے مطابق کسی ملک کی آبادی، معاشی اور فوجی حیثیت کا جائزہ لے کر جو درجہ بندی کی جاتی ہے اس لحاظ سے پاکستان درمیانے درجے کی طاقت ہے اور دنیا کے تمام ممالک کی صف بندی میں 15 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ 2050 تک پاکستان دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہوسکتا ہے جبکہ پاور انڈیکس کی رینکنگ میں اس جنوبی ایشیائی ملک کا نمبر ساتواں ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں کسی بھی حالت میں اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہر حال میں بہتری کی امید رکھنی چاہیے۔

پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ اول

پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ دوم

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *