جديد افغانستان کا بانی: احمد شاہ ابدالی

مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

احمد شاہ، درانی سلطنت اور جدید افغانستان کا بانی تھا۔ آپ 1720 یا 1722 میں ہرات کے گورنر محمد زمان خان ابدالی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ابدالی قبیلے کے سردار تھے۔ آپ پیر روشان، خوشحال خان اور میر وایس خان کے بعد چوتھے پختون رہنما تھے جنہوں نے پختونوں کے اتحاد اور وطن کی آزادی کے لیے تلوار اٹھائی اور کامیاب بھی ہوئے۔ آپ ہی نے 1747 میں افغانستان کو فارسیوں سے آزاد کروایا تھا اور آزاد وطن کے پہلے بادشاہ بنے تھے۔ وطن کی آزادی کے بعد آپ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ ایران سے لے کر دہلی اور بخارا سے لیکر بحیرہ عرب تک اپنی سرحدیں پھیلانے میں کامیاب ہوچکے۔

فوجی کیریئر

احمد شاہ کا فوجی کیریئر بچپن ہی میں شروع ہوا تھا۔ 1729 میں ایران کے نادر شاہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ ابدالی لشکر ایرانیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئی مگر بہت جلد بغاوت کے راستے ہرات اور مشہد کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو چکی۔ ایرانی لشکر نے دوسری مرتبہ یہ علاقہ قبضہ میں لے لیا تو دس یا بارہ سالہ احمد شاہ قندھار میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ قندھار کے خلجی حکمران حسین ہوتک نے آپ کو قیدی بنا لیا یعنی میرویس بابا کی طرح آپ نے بھی اپنی زندگی کے کئی سال جیل میں گزارے۔ 1738 میں نادر شاہ نے خلجیوں کو شکست دے کر قندھار فتح کیا تو نوجوان احمد شاہ کو نہ صرف جیل سے رہا کر دیا گیا بلکہ اسے اپنی فوج میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز کیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو چار ہزار سپاہیوں پر مشتمل ابدالی لشکر کا کمانڈر بنایا گیا۔

نادر شاہ کے ساتھ آپ کی قربت

نادر شاہ آپ سے حد درجہ متاثر تھے، وہ آپ کو اکثر اپنے ہمراہ رکھتے تھے۔ نادر شاہ کی دہلی مہم کے دوران بھی آپ ان کے ساتھ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں لال قلعہ کے اندر ایک نجومی نے آپ کو دیکھ کر کہا تھا کہ آپ مستقبل کے ایک بڑے بادشاہ بننے والے ہیں اور جب نادر شاہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے آپ کو کہا کہ بادشاہ بننے کے بعد تمہیں میری یاد آئے گی، یہاں تک کہ کئی مورخین کے مطابق نادر شاہ آپ کو اپنا جانشین مقرر کرنے پر بھی راضی تھے ۔ آپ نے کبھی بھی نادرشاہ کے اس اعتماد اور احترام کو ٹھیس نہیں پہنچایا اور جب انکے اپنے کمانڈروں نے ان کو قتل کردیا تو آپ اپنے محسن اور رہنما کو نہ بچانے کے غم میں بہت روئے۔

ایرانی بادشاہ نادر شاہ

وطن کی آزادی

اگر چہ آپ کے لیے نادر شاہ کی وفات کے بعد ایران میں رہ کر اقتدار ہاتھ میں لینا کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اور واپس اپنے وطن تشریف لائے۔ 1747 میں آپ نے قندھار میں وطن کی آزادی کا اعلان کیا اور لویہ جرگہ کے اجلاس میں آپ کو افغانستان کا بادشاہ مقرر کیا گیا ۔

احمد شاہ نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہی غزنی کو خلجیوں اور پشاور و کابل کو مغلوں کے گورنر ناصر خان سے آزاد کروایا۔ آپ پشاور میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ یہ ہندوستان کی سرحد کے قریب واقع تھا۔ آپ نے ایران کے اندر حملے کرکے مشہد اور نیشاپور کو اپنی سلطنت میں شامل کر دیا۔ 1748 سے 1760 تک آپ نے ہندوستان پر آٹھ حملے کیے۔ 1749 میں آپ پنجاب کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔

پانی پت کی تیسری جنگ

پانی پت کی یہ جنگ دراصل مراٹھا ہندوؤں کے خلاف افغانوں کی دوسری مہم تھی۔ اس سے پہلے 1757 کے مہم میں احمد شاہ بابا کے بیٹے تیمور شاہ کو مراٹھوں کے مقابلے میں شکست ہو چکی تھی۔ جنوری 1761 میں پانی پت کے مشہور میدان میں افغانوں اور مراٹھوں کا آمنا سامنا ہوا۔ احمد شاہ بابا کو اس جنگ میں نجیب الدولہ کی سربراہی میں روہیلہ پختونوں، ریاست اودھ کے حکمران شجاع الدولہ، قلات کے بلوچ حکمران اور بچے کچھے مغل لشکر کی حمایت حاصل تھی۔ یعنی کہ یہ افغان اور مراٹھوں کے درمیان جنگ کے بجائے مسلمانوں اور ہندوؤں کی جنگ بن چکی تھی جس میں جہاد کا جذبہ بھی کارفرما تھا ۔ ایک خونریز جنگ لڑنے کے بعد مرہٹوں کے قدم اکڑ گئے۔ جنگ میں افغانوں کے بیس ہزار سپاہی مرچکے یا زخمی ہوئے مگر دوسری طرف مراٹھوں کے پچاس ہزار سے ایک لاکھ لوگ ہلاک ہوچکے۔ جنگ افغانوں کی فیصلہ کن فتح پر ختم ہوئی۔ اس فتح نے احمد شاہ ابدالی کو شمالی ہندوستان کا حکمران بنایا مگر اپنے وطن سے محبت کی خاطر آپ نے دہلی میں رہنے کے بجائے واپس افغانستان کا رخ کر دیا ۔

احمد شاہ ابدالی ایک شاعر کے طور پر

آپ بھی خوشحال خان اور پیر روشان کی طرح تلوار چلانے کے ساتھ ساتھ قلم چلانے کے فن کے ماہر تھے۔ آپ اپنے وقت کے ایک عظیم شاعر تھے ۔ آپ نے اپنی شاعری میں اپنی قوم پرستی اور حب الوطنی کا برملا اظہار کیا ہے۔ جن کا یہاں ایک مثال پیش کیا جاتا ہے۔

ستا د عشق د وينو ډک شول ځيګرونه
ستا په لاره کې بایلي زلمي سرونه

تاته راشمه زړګی زما فارغ شي
بې له تا مې اندیښنې د زړه مارونه

د ډيلي تخت هيروومه چې راياد کړم
زه د ښکلې پښتونخوا د غرو سرونه

د فريد او د حميد دور به بيا راشي
چې زه وکاندم په هر لوري تختونه

که تمامه دنیا يو خوا ته بل خوا ئی
زما خوښ دي ستا خالي تش ډګرونه

وفات

کہا جاتا ہے کہ آپ گھڑ سواری کے دوران یا کسی دوسرے ناگہانی حادثے کا شکار ہو کر زخمی ہو چکے تھے اور ان زخموں سے موت کے منہ میں چلے گئے تھے ۔ 1772 میں وفات کے وقت آپ کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی۔ آپ کو قندھار میں دفن کر دیا گیا جہاں آج آپ کے قبر پر ایک عالیشان مزار بن چکا ہے۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کا بیٹا تیمور شاہ بادشاہ بنا۔ تقریباً اگلی نصف صدی تک درانی سلطنت قائم رہی جبکہ بعد میں بارکزئی سلطنت نے ان کی جگہ لے لی مگر اتنا ضرور ہے کہ بابا کا افغانستان پھر کبھی بھی کسی بیرونی طاقت کے سامنے نہ جھکا۔

خدائی خدمتگار تحریک کی تاریخ اور اہمیت

ہندوستان پر حکومت کرنے والے پختون بادشاہ

خوشحال خان خٹک: ایک عہد ساز شخصیت

3 thoughts on “جديد افغانستان کا بانی: احمد شاہ ابدالی”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *