تین انگریز افغان جنگیں : ان جنگوں کا کیا نتیجہ نکلا

مصنف: عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

جب پوری دنیا پر برطانوی طاقت کا سورج چمک رہا تھا اور انگریز بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ ہماری سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تو عین اسی زمانے میں برطانیہ نے کئی مرتبہ تقریبا چالیس چالیس سال کے وقفے کے بعد افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے تین جنگیں لڑیں مگر وہ ایشیا کا دل کہلانے والے اس ملک کو قبضہ کرنے میں ناکام رہیں۔ یہاں ان تین انگریز افغان جنگوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

پہلی جنگ (1839-42)

اٹھارہ سو چھبیس سے بارکزئی سلطنت کا دوست محمد خان افغانستان کا بادشاہ تھا۔ برطانوی حکومت نے خان پر الزام لگایا کہ وہ برطانوی مفادات کے خلاف روس کا ساتھ دے رہے ہیں اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے افغان بادشاہ اور انگریز سرکار کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے مگر انگریز مطمئن نہ ہو سکے۔ یوں برطانوی ہند کے گورنر جنرل لارڈ آکلینڈ نے افغانستان پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اپریل سے اگست 1839 تک برطانیہ نے قندھار سے کابل تک کا علاقہ فتح کیا اور دوست محمد خان کو ہٹاکر شاہ شجاع کو افغانستان کے تخت پر بٹھایا۔ دوست محمد خان بخارا فرار ہوئے مگر موقع ملتے ہی واپس آ کر انگریزوں کے خلاف جنگ کی قیادت شروع کی، ابتدائی جیت کے بعد وہ انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے۔ اس دفعہ اسے برطانوی ہند بھیجا گیا۔ دوست محمد خان کے بیٹے اکبر خان نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا اور انگریزوں کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ انگریز فوجی جلال آباد کے راستے پشاور جا رہے تھے کہ افغانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان پر ایسے تابڑتوڑ حملے کیے کہ 16000 برطانوی فوج اور ان کے رفقاء میں سے صرف ایک شخص اپنی جان بچا کر ہندوستان پہنچنے میں کامیاب ہوا، باقی سب قتل ہوئے۔ پس یہ جنگ افغانوں کی فیصلہ کن جیت پر ختم ہوئی۔

اس جنگ میں برطانیہ کی طرف سے 46500 اور افغانوں کی طرف سے 25 ہزار لوگوں نے ہتھیار اٹھائے جبکہ انگریزوں کے 17000 اور افغانوں کے 15000 لوگ قتل ہوئے۔

دوسری جنگ (1878-80)

اس جنگ کے زمانے میں دوست محمد خان کا بیٹا شیرعلی خان افغانستان کا بادشاہ بن چکا تھا۔ برطانوی ہند کے گورنرجنرل نے بادشاہ کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنا ایک مشن افغانستان بیجھنا چاہتا ہے۔ بادشاہ کی طرف سے اجازت نہ ملی تو انگریز وائسرائے نے کہا کہ افغانستان تو دو مضبوط برتنوں کے درمیان مٹی کی ہانڈی ہے۔ اس کے بعد جب افغان بادشاہ نے روس کے مشن کو کابل آنے کی اجازت دے دی تو انگریزوں کا غصہ مزید بڑھ چکا۔ یوں نومبر 1869 کو انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا۔ شیر علی نے جان بچانے کی خاطر افغانستان سے فرار کی راہ لی اور ایک سال بعد جلا وطنی میں ہی انتقال کرگئے۔ انگریزوں نے شیر علی کے بیٹے یعقوب خان کے ساتھ امن معاہدہ کیا اور افغانستان کے خارجہ امور انگریزوں کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ 1880 میں شیر علی کا بھتیجا عبدالرحمان افغان امیر بنا۔ اسی دور میں 1893 میں انگریزوں اور افغان حکومت کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا سرحدی معاہدہ ہوا جو آج بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان نافذ العمل ہے۔

امیر عبدالرحمان

اس جنگ کو انگریزوں کی مکمل فتح نہیں تو آدھی فتح قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس جنگ کے بعد انگریزوں اور افغان حکومت کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس کے تحت انگریز افغانستان سے نکل گئے مگر 1919 تک افغانستان کے خارجہ امور ان کے ہاتھ میں رہیں۔ اس جنگ میں پانچ ہزار افغان جبکہ 1850 انگریز قتل ہوئے مگر بیماریوں کی وجہ سے مزید آٹھ ہزار انگریز مرنے کی وجہ سے ان کا جانی نقصان کافی بڑھ گیا۔

تیسری جنگ (1919)

مئی سے اگست 1919 کو تیسری افغان انگریز جنگ لڑی گئی جس میں افغان ڈیورنڈ لائن کے آر پار اپنی پچاس ہزار فوج کے پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہیں۔ تمام پختون قبائل کا یہ لشکر 80 ہزار لوگوں پر مشتمل تھا۔ دوسری طرف انگریز بھی آٹھ ڈویژن اور پانچ بریگیڈ فوج کے ساتھ میدان میں اتریں۔ اس دفعہ انگریزوں کے ساتھ جنگی جہاز بھی موجود تھے۔

امیر امان اللہ خان

اس جنگ کے دو وجوہات تھیں پہلی یہ کہ 1914 سے 1918 تک پہلی جنگ عظیم کے دوران اگر چہ افغانستان نے سرکاری طور پر جنگ میں حصہ نہیں لیا مگر افغان عوام نے خلافت عثمانیہ کا بھرپور ساتھ دیا جو انگریزوں کو قابل قبول نہ تھا۔ مگر اس سے بڑی وجہ یہی تھی کہ 20 فروری 1919 کو امیر حبیب اللہ خان کی قتل کے بعد جب اس کا بیٹا امان اللہ خان امیر بنا تو نئے امیر نے برطانوی راج سے مکمل آزادی کا اعلان کیا اور یہی بات اس جنگ کی اصل پیش خیمہ بنی۔ تین مہینے کے جنگ کے بعد آٹھ اگست 1919 کو راولپنڈی میں انگریزوں نے افغانستان کے آزادی کے کاغذات پر دستخط کئے اور یہ جنگ اختتام پذیر ہوا۔ یعنی کہ افغانوں نے نہ صرف اپنے وطن کا دفاع کیا بلکہ انگریزوں کے برائے نام غلامی سے آزادی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ اس جنگ میں ایک ہزار سے زائد افغان اور ڈھائی سو کے قریب انگریز فوجی قتل ہوئے۔

ماضی قریب کی روس افغان جنگ ہو یا امریکہ طالبان جنگ دونوں مرتبہ تاریخ نے اپنے آپکو دہرایا اور کوئی بھی عالمی طاقت افغانستان کو قبضہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بار بار جنگوں کی وجہ سے کوہ ہندوکش کا یہ ملک آج ایشیا کا غریب ترین ملک ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افغان بیرون ملک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو آبادی کے نصف سے زائد حصے کو خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔

کیا افغان/پختون نسلاً بنی اسرائیل ہیں

کیا واقعی قیس عبدالرشید پختونوں کے جدامجد تھے؟

یوسفزئی پختون : کل اور آج

1 thought on “تین انگریز افغان جنگیں : ان جنگوں کا کیا نتیجہ نکلا”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *