مصنف: عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
دراصل تیس سال پہلے پاکستانی عوام اور خطے کے دیگر اقوام کی طرز زندگی میں اتنا زیادہ فرق نہیں تھا لیکن پچھلے تین دہائیوں میں بہت کچھ بدلا ہے اور اس عرصہ میں تیسری دنیا کے کئی ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو چکے ہیں یا یہ مقام حاصل کرنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی عوام دیگر پڑوسی اقوام کے مقابلے میں پیچھے رہ چکے ہیں۔ پاکستانی صورتحال جاننے سے پہلے بھارت اور بنگلہ دیش کی ان تین دہائیوں میں سفر کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
ہندوستان نوے کی دہائی میں
تیس سال پہلے ہندوستان معاشی لحاظ سے ایک کمزور تھا جو فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل تھا جہاں متوسط طبقہ (مڈل کلاس) انتہائی محدود تھا، زیادہ تر لوگوں کا گزر بسر زراعت پر تھا یا بیرون ملک ملازمت پر ۔ فوجی لحاظ سے یہ پاکستان کا ہم پلہ تھا، خالصتان کے مسئلے پر ابھی ابھی قابو پایا جا چکا تھا مگر کشمیر میں مکمل خانہ جنگی کی سی صورتحال تھی۔ بھارت ایک سیکولر اور جمہوری ملک تھا جو خارجہ محاذ پر ایک علاقائی طاقت کے طور پر فعال تھا ۔
آج کا ہندوستان
پچھلے تیس برسوں میں معاشی لحاظ سے بھارت ایک پرکشش مارکیٹ کے طور پر ابھرا ہے جو عالمی سرمایہ کاروں کے لیے سب سے پسندیدہ مقام ہے ۔ آج یہ ملک دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکی ہے ۔ بھارتی سرمایہ دار دنیا کے کئی ممالک میں بڑے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
بھارت چین کے بعد سب سے بڑے دفاعی بجٹ کا حامل ملک ہے ۔ حکومت اپنی دفاع کو اس سطح پر لے جانے کی کوشش کر رہا ہے کہ مستقبل میں چین اور پاکستان کے ساتھ بیک وقت نمٹا جا سکے۔ آج کے بھارت میں نہ خالصتان جیسا مسئلہ ہے اور نہ کشمیر میں جہاد چل رہا ہے۔

دنیا کے سٹیج پر امریکا ، روس اور چین کے بعد بھارت دنیا کا سب سے مضبوط کردار ہے جو جلد یا بدیر اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کی حیثیت سے شامل ہونے کے لیے پر تول رہا ہے ۔ ہاں اتنا ہے کہ مودی کے دور میں ہندو انتہا پسندی عروج پر پہنچ چکی ہے اور آج کا بھارت سیکولر ہے نہ جمہوری، جہاں اظہار رائے کی آزادی ایک خواب بن چکی ہے اور اقلیتوں کے لیے زندگی وبال۔
بنگلہ دیش
نوے کی دہائی کا بنگلہ دیش غربت کا ایک تصویر تھا جہاں طاقتور فوجی جنتا سیاست کا سب سے مضبوط کھلاڑی تھا۔ فوج نے کئی مرتبہ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تو کئی مرتبہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس ملک کا بین الاقوامی تعلقات میں کردار نہ ہونے کے برابر تھا ۔
آج کا بنگلہ دیش ایک فسطائی (فاشسٹ) ریاست بن چکی ہے جہاں شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں اپوزیشن کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مگر معاشی لحاظ سے یہ ملک ترقی کا ایک استعارہ بن چکا ہے۔ شیخ حسینہ واجد جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران اقوام عالم کو اپنی ملکی ترقی کی کہانی سنا کر متاثر کر رہی ہوتی ہے ۔انہی معاشی ترقی کے بل بوتے آج بنگلہ دیش کو دنیا کے دو سو ممالک میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔
نوے کی دہائی کا پاکستان
جنرل ضیا کی طویل فوجی دور حکومت کے خاتمے کی صورت میں ملک میں جمہوریت بحال ہوچکی تھی مگر اصل میں اب بھی طاقت اور اقتدار کی اصل مالک فوجی اسٹبلشمنٹ تھی جو بینظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف کو سپورٹ کر رہی تھی۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی منفی سیاست کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام تھا جس کی وجہ سے معیشت وینٹی لیٹر پر تھی اور عوام کو مہنگائی کی طوفان کا سامنا تھا۔

اگر پاکستانیوں کے لئے کچھ اچھا تو وہ چار کھیلوں کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر میں بیک وقت ورلڈ چیمپئن بننا تھا یا یہ کہ ملک ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بن چکی تھی ۔
آج کا پاکستان
پاکستان کی کہانی بھارت اور بنگلہ دیش جیسی نہیں ہے پاکستان کے تقریباً تمام اشاریے آج بھی وہی ہیں جو تین دہائیاں قبل تھیں مثلاً کہ کیا آج پاکستان میں طاقت کا مرکز جی ایچ کیو نہیں ہے؟ کیا آج پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور پی ڈی ایم و پی ٹی آئی کے درمیان خود غرضی کی سیاست کا کھیل جاری نہیں ہے ؟ اور کیا آج ملکی معیشت بحران کا شکار نہیں ؟ اور کیا عوام پچاس سال کی بلند ترین شرح کی مہنگائی کے ملبے تلے دبے نہیں جا رہیں؟
پاکستانی عوام خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ ایک سال میں آٹھ لاکھ سے زائد نوجوانوں نے بیرونی ممالک کا رخ کیا۔
جس ملک کی اندرونی سیاسی صورتحال تسلی بخش نہ ہو، جہاں معیشت کے پھلنے پھولنے کے بجائے سکڑنے کے آثار نظر آ رہے ہو۔ جس ملک کے وزراء اعظم امریکہ ، چین ، سعودی عرب ، امارات یا آئی ایم ایف کے در پے قرضے یا امداد کے لئے کھڑے ہو۔ اس ملک کا بین الاقوامی تعلقات میں حیثیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

کیا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ؟
اپنی زیادہ آبادی اور فوجی طاقت کی وجہ سے پاکستان اب بھی ایک مڈل پاور کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے اربوں ڈالر کی ترسیلات زر کی شکل میں سرمایہ کاری کی صورت میں بنیادی ڈھانچہ میں گزشتہ تین دہائیوں میں کافی ترقی بھی ہو چکی ہے۔ یہی ترسیلات زر ( تیس سے پچاس ارب ڈالر سالانہ ) اب بھی ملکی معیشت کے لیے ویکسین کا کام سرانجام دے رہی ہے۔ کبھی کبھی کھیلوں خصوصاً کرکٹ ، سنوکر، کبڈی یا علاقائی کھیل مقابلوں میں جیت کی صورت میں پاکستان کا پرچم بھی فضا میں بلند ہوتا ہے جبکہ ذہین پاکستانی ملک کے لیے بین الاقوامی اعزازات سمیٹ کر عزت بھی کماتے ہیں ۔
حل
پاکستان کا جتنا نقصان ہونا تھا ہو چکا ہے۔ اب مزید کی گنجائش نہیں۔ آج سے اپنے لئے اہداف مقرر کرنے چاہیے ۔ منفی سیاست کو خیرباد کہنا چاہیے ، تمام اداروں کو آئین و قانون کی حد میں رہ کر صرف اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے، تقسیم در تقسیم کی شکار اس نام نہاد قوم کو حقیقی قوم کی شکل میں تبدیل کرنا ہے اور یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب کسی ایک علاقائی گروہ کی بالادستی قائم نہ ہو بلکہ تمام وفاقی اکائیوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو ۔
صحت مند طرز زندگی کیسے اختیار کی جائے
سلطنت فارس کا مختصر تاریخی جائزہ؛ حصه اول
پاکستانی سیاست کے مشترکہ خصوصیات
Hm