تنہائی اچھی یا بری؟

مصنف : عامر ظهير (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)

عظیم یونانی مفکر اور فلسفی ارسطو نے انسان کو سماجی جانور کا نام دیا ہے اس کے مطابق اگر کوئی شخص معاشرے سے الگ تھلگ زندگی گزار رہا ہے تو وہ یا تو دیوتا ہے یا حیوان۔ انسان چاہے بھی تو وہ معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ انسان فطرتاً لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا پسند کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی پارک میں جاتا ہے اور وہاں رش ہو تو وہ کہتا ہے کہ خوب چہل پہل تھی۔ اور اگر وہاں لوگ معمول سے کم ہو تو پھر کہتا ہے کہ آج رونق نہیں تھی، مزہ نہیں تھا۔ اسی لیے پشتو کے معروف شاعر عبدالرحیم روغانے کہتے ہیں

په دومره لوی جهان کې د انسان څه جسامت دی
بيا هم جهان جهان دی د انسان په برکت

کہ اتنی بڑی دنیا میں انسان کی کیا جسامت اور حیثیت ہے مگر پھر بھی یہ دنیا انسان ہی کی وجہ سے آباد ہے۔ انسان کی ہر درد کی دوا انسان ہے۔ ادب کی دنیا میں تنہائی کو برا سمجھا جاتا ہے جبکہ سماجیات اور سیاست میں تو تنہائی موت کہلاتی ہے۔ مگر زندگی میں کئی مواقع پر جب آپ محسوس کریں کہ دوستوں کے درمیان گپ شپ کے دوران آپ کی ذہنی الجھنیں اور انتشار مزید بڑھتا ہے تو تنہائی کو اپنا دوست بنا لو۔ تنہائی میں الجھی گتھیاں خود بخود سلجھنے لگتی ہیں، سوچوں کے بھنور کو کنارہ مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو زیادہ مصروفیت کی وجہ سے یا بے وجہ ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں تو ماہرین نفسیات انہیں کسی پرفضا مقام پر جانے اور اکثر موبائل فون تک استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں اب لوگوں نے “می ٹائم” کے نام سے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے۔ جس کے دوران موبائل فون کو مکمل طور پر بند کیا جاتا ہے، فیملی اور دوستوں سے الگ صرف اپنے ساتھ وقت گزارا جاتا ہے کیونکہ تنہائی خود سے ملاقات کراتی ہے، رب سے ملاتی ہے، علم کے خزانوں کی چابی ہاتھ آتی ہے، تنہائی روحانی ترقی کے لئے لازم سمجھی جاتی ہے۔

تنہائی اور مذہب

ہندوستان میں جنم لینے والے مذاہب ہندو مت، بدھ مت اور جین مت میں “نروانا” یعنی دنیا کی مصروفیات سے مکمل آزادی وہ منزل ہے جہاں انسان بڑی محنت سے پہنچتا ہے۔ اسے اطمینان کا آخری منزل کہا جاتا ہے۔ اسلام اگرچہ دنیا سے کنارہ کش ہونے کے خلاف ہے مگر رمضان میں اعتکاف، تصوف میں مراقبہ اور چلا تنہائی کی عبادات ہیں اور ان عبادات کے فضائل سے ان کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

ولیم مائنر

انیسویں صدی کے اواخر میں ولیم مائنر نامی شخص امریکی آرمی میں سرجن تھا۔ اسے بیماری کی عالم میں برطانیہ کے ایک پاگل خانے میں داخل کروایا گیا۔ وہاں اس نے اپنی ذاتی لائبریری سے کتابیں منگوا کر انگریزی ڈکشنری لکھنا شروع کیا اور آج آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کا زیادہ تر حصہ ان کی محنت کا ثمر ہے۔ اکثر لکھنے والوں نے زیادہ تر کتابیں جیلوں میں لکھ ڈالی ہیں۔ پاکستان میں بھی آمریت کے زمانے میں جمہوریت پسند صحافیوں، دانشوروں اور سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا تو وہ وہاں لکھنے پڑھنے میں لگ جاتیں۔ پشتو کے مشہور فلسفی شاعر عبدالغنی خان نے اپنے کلام کا بڑا حصہ جیل میں ہی لکھ ڈالا ہے۔

مشہور جرمن فلسفی نیٹشے نے اپنی عمر کا آخری حصہ اٹلی کے ایک گیسٹ ہاؤس میں اکیلے میں گزارا۔ وہ دن رات کتابیں لکھنے میں مشغول رہتا۔ حالانکہ ان کی زندگی میں ان کی کتابوں کے پڑھنے والے انتہائی کم تھیں، مگر تنہائی میں لکھی گئی فلسفے کی وہ کتابیں آج دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔

تنہائی کے نقصانات

زیادہ عرصے تک اکیلے رہنے کی وجہ سے بندہ ڈپریشن کا مریض بن جاتا ہے، انسان میں سستی پیدا ہوتی ہے یعنی کہ زیادہ عرصہ تک تنہائی اختیار کرنا نہ ذہنی صحت کے لئے ٹھیک ہے نہ جسمانی۔ اس لئے تو بہت سے ممالک میں خطرناک مجرموں کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق تنہائی کی وجہ سے انسان کی ذہنی ساخت اور سوچوں میں ہفتوں کے حساب سے تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اسی طرح ضرورت کے وقت آپ کی مدد کے لیے کوئی دستیاب بھی نہیں ہوتا اور سیکورٹی کے مسائل الگ سے ہوتے ہیں۔

مندرجہ بالا تمام بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ مستقل طور پر تنہائی اختیار کرنا بلکل بھی ایک اچھا اقدام نہیں۔ یہ دنیا کی مصروفیات اور بھیڑ میں گزرنے والی زندگی کے درمیان وقفوں کے طور پر اختیار کرنی چاہیے، اسی صورت میں یہ فائدہ مند ہے۔

3 thoughts on “تنہائی اچھی یا بری؟”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *