تصوف کسے کہتے ہیں؟ تصوف کی دنیا کے بارے میں جانیے

مصنف: عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

تصوف کا آغاز

آپ لوگوں نے تصوف، پیر، مرید، بیعت، مراقبہ وغیرہ کے الفاظ تو سنے ہوں گے۔ یہ ایک الگ دنیا سے متعلق الفاظ، کردار اور افعال ہیں آج اس دنیا کی سیر پر چلتے ہیں۔ تو بات کچھ ایسی ہے کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ بیعت (بیعت دراصل ایک معاہدہ ہوتا ہے) لیتے رہتے تھے۔ جس میں ایک تو اسلام کی بیعت ہوتی تھی جب ایک غیر مسلم آکر آپ کے ہاتھ مبارک پر اسلام قبول کرلیتا۔ دوسری قسم بیعت جھاد کی تھی جب حدیبیہ کے مقام پر کسی نے افواہ پھیلا دی کہ کفار مکہ نے حضرت عثمان کو شہید کر دیا ہے تو آپ نے عثمان کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا اور صحابہ کرام کو بیعت لینے کے لیے کہا گیا تو ایک ایک شخص نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کیا۔ تیسری قسم بیعت توبہ کی تھی جب کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو وہ آکر آپ کے ہاتھوں پر توبہ تائب ہو جاتا یہی بیعت توبہ بعد میں تصوف کے نام سے مشہور ہوئی۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی وصال کے بعد بیعت توبہ کی یہ روایت برقرار رہی۔ ابوبکر صدیق اور حضرت علی کے ہاتھوں پر مسلمان توبہ کی بیعت کرتے رہتے تھے اور یہی سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ تصوف کی وجہ سے اس شعبے سے وابستہ لوگ صوفی کہلائے جنہیں دوسرے الفاظ میں پیر اور مرید کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بیعت دینے والا پیر اور لینے والا مرید ہوتا ہے۔ پیر کی جانب سے مرید کو ذکر لسانی اور ذکر قلبی کے وظائف دیے جاتے ہیں انہیں مراقبہ کا طریقہ سکھایا جاتا ہے (مراقبہ دراصل کچھ لحظوں کے لیے اپنے آپ کو دنیا و مافیا سے کاٹ کر خدا کی طرف مکمل توجہ حاصل کرنے کا ایک مشق ہوتا ہے) پیر کی جانب سے سے مرید کو نیکی کے راستے پر چلنے اور گناہوں سے بچنے کی ہدایت کی جاتی ہے ان تمام کورس کو تزکیہ نفس کہا جاتا ہے۔ اب جتنی جلدی مرید تزکیہ نفس کا یہ مشکل ترین مرحلہ مکمل کرے تو پیر کی طرف سے اسے خلافت عطا کی جاتی ہے یعنی اب وہ مرید کے بجائے خود پیر بنتا ہے اور وہ بھی بیعت دینے کا سلسلہ جاری کر سکتا ہے۔ مرشد جہاں بیٹھے ہوتے ہیں اس جگہ کو خانقاہ کہا جاتا ہے۔

پیر کون ہوتا ہے

ان لوگوں کو ہم اولیاء اللہ یعنی اللہ کے دوست بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ اصحاب مکمل طور پر شریعت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور ان کی بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ یہ ان لوگوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے ہیں جو ان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان سے لوگوں کو صرف خیر پہنچتا ہے، یہ محبت والے ہوتے ہیں، عوام کے درمیان جوڑ کا کام کرتے ہیں توڑ کا نہیں۔ یہ کھلانے والے ہوتے ہیں نا کہ کسی سے کھانے والے۔

تصوف کے چار سلسلے

آجکل تصوف سے وابستہ تمام پیر و مرید نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ اور سہروردیہ کے نام سے قائم چار سلسلوں سے منسلک ہیں۔ اس میں سب سے پہلے سلسلہ چشتیہ قائم ہوا۔ جن کی بنیاد ابو اسحاق شامی نامی بزرگ نے افغانستان کے ایک چھوٹے قصبے چشت میں دسویں صدی عیسوی میں رکھی۔ بارہویں صدی عیسوی میں معین الدین چشتی نے ہندوستان کے شہر اجمیر میں یہ سلسلہ متعارف کروایا۔ بارہویں صدی عیسوی میں ایران کے دو روحانی شخصیات عبد القادر جیلانی نے سلسلہ قادریہ اور ابو ال نجیب سہروردی نے سلسلہ سہروردیہ کا آغاز کیا جبکہ چودھویں صدی عیسوی میں بخارا کے بہاؤ الدین نقشبند نے سلسلہ نقشبندیہ شروع کیا۔ یہ تمام سلسلے آخر میں ابوبکر صدیق اور حضرت علی کے راستے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتے ہیں۔

صوفی اور ملا میں فرق

لمز یونیورسٹی لاہور سے وابستہ ڈاکٹر سیدہ عارفہ زہرا کے مطابق ملا ہمیشہ بادشاہوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ہمنوا اور قریب رہا ہے جبکہ صوفی تو درباروں سے دور بھاگتا ہے۔اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر اباسین یوسفزئی اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں :

صوفي ګرځي په براق
ملا ناست دی پيزواني

کہ صوفی اپنی روحانی طاقت اور قرب الہی کے بل بوتے آسمانوں کی سیر کر رہا ہے جب کہ ملا اپنے مفادات کی خاطر مادہ پرستی میں جکڑا جا چکا ہے۔

تصوف کے درجے

جس طرح ہم نے پہلے ذکر کیا کہ تصوف در اصل تزکیہ نفس کا دوسرا نام ہے اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کا سب سے مشکل کام اپنے نفس کے خلاف جانا ہے، نفس شیطان سے زیادہ خطرناک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نفس کے خلاف جہاد کو جہاد اکبر کا نام دیا ہے یعنی کہ سخت گرمی میں، روزہ کی حالت میں، دوپہر کے وقت میں اپنے سے طاقتور لشکر کے خلاف جہاد کرنے سے مشکل کام نفس کو قابو کرنا ہے۔ تصوف کا پہلا درجہ معرفت خودی ہے یعنی کہ اپنے آپ کو حقیقت میں پہچاننا۔ اس درجے کے بارے میں پشتو کے مشہور شاعر حمزہ خان شنواری کچھ اس طرح گویا ہے :

ما په رو رو ښکاره کوي و ماته
د کائنات په زړه کې راز يمه زه

یعنی کہ میں تو کائنات کا ایک راز تھا تصوف کی دنیا میں آ کر اب دھیرے دھیرے خود کو جاننے لگا ہوں۔

دوسرا درجہ وحدۃ الوجود کا ہے جب عشق حقیقی میں آپ کو اپنا وجود خدا کی ذات سے الگ محسوس ہی نہ ہو۔ اس مقام سے متعلق حمزہ بابا کا شعر عرض ہے :

ته چې ماته وايې چې زما نه ځان قربان کړه
نو ځان د ځانه څنګه قربانيږي زه حيران يم

کہ تو مجھے کہتا ہے کہ اپنے آپ کو مجھ پر قربان کرو تو بھلا اپنے آپ پر بھی کوئی قربان ہو سکتا ہے۔

تیسرا درجہ فنا فی اللہ کا ہے جب آپ کو ہر چیز میں صرف خدا ہی نظر آئے یہاں تک کہ اپنے آپ میں بھی، اور پھر آپ مکمل طور پر خدا کی محبت میں کھو جائے، فنا ہو جائے اگرچہ آپ زندہ ہو۔ اس درجہ کی تعریف حمزہ بابا کچھ اس طرح کرتے ہیں :

هاغه څوک دي چې به حق نه وايي ځان ته
قصوروار په درست جهان کې يو منصور شو

یعنی کے انالحق کا نعرہ لگا کر منصور کو کیوں مجرم قرار دے دیا گیا اس جہاں میں تو ہر شخص اپنے آپ کو حق پر قرار دے رہا ہے۔

تصوف کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے

اکثر لوگ یہ سوال پوچھتے رہتے ہیں کہ تصوف یا کسی سے بیعت کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ خدا اور بندے کے درمیان پیر کی کیا ضرورت ہے ؟ تو بھائیوں تصوف کا مقصد اپنے نفس کو قابو کرکے خدا سے عشق کے مقام تک پہنچنا ہے، یہ کام استاد کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر لمحہ شیطان اور نفس آپ پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ استاد یعنی پیر صاحب آپ کو ان خطرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ہم نے روحانیت کی موضوع پر لکھی گئی بلاگ میں روحانی بیماریوں کے بارے میں ذکر کیا تھا ہمیں اپنے روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے یہی پیر اور مرشد درکار ہوتے ہیں۔ مفسرین کے مطابق تصوف قرآن مجید سے ثابت ہے مثلاً کہ : ترجمہ ” ہم آپ کے شہ رگ سے زیادہ آپ کے نزدیک ہے ” اگر چہ حقیقت میں تو خدا بہت زیادہ دور ہے۔ علماء کے نزدیک جن کا پیر نہیں ہوتا اس کا پیر شیطان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیوبند کے لنگری تک سب بیعت شدہ تھے۔

مادیت بمقابلہ روحانیت، یہ روحانیت کیا چیز ہے

علم، علم کی شاخیں، علماء کی اقسام

11 thoughts on “تصوف کسے کہتے ہیں؟ تصوف کی دنیا کے بارے میں جانیے”

  1. آفرین بہت ہی اعلی اور اس وقت کی ضرورت کے مطابق جب تک ہم اپنے اکابرین کے راستے پر نہیں چلتے منزل تک پہنچنا ناممکن ہیں اس لئے حمزہ بابا فرماتے ہیں
    حمزہ لاس ئی ښکلوہ چی چرته سید ووینی
    زکہ چی دا سلام حضرت رسول الله ته رسی
    جب واقعہ کربلا ہوا تو اس کے بعد بس دو ہی فرقے یا گروپ رہتے ہیں
    ایک یزید اور ایک مولا حسین ع

    بس اب جو حق کے راستے پر چلے گا فلاح اور کامیابی پائے گا
    شکریہ اپ کا اس انمول کالم کا

  2. Sir
    Indeed it is very informative and very precised..
    To be honest i read it twice to remember it all..
    Much appreciated 👍

  3. Never heard anything these kind of stuff. It’s definitely worthy to read out, thanks for giving importance to these unique topics

  4. Very happy to read such an amazing information about tasuwf….thanks for clearing us about this interesting topic because nowadays a lot people not believe in peer mureed things… Bundle of thanks…

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *