مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

تیسری دنیا کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں تعلیم کی انتہائی کمی ہے۔ جاہل معاشروں میں تنگ نظری اور انتہا پسندی عروج پر ہوتی ہیں۔ ہر شخص اپنی رائے کو صحیح اور دوسرے کی رائے کو غلط قرار دینے پر تلا ہوا ہوتا ہے۔ سچ کو جاننے کے لیے تحقیق کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں۔ کیونکہ لوگوں کو جیت اور ہار پر مبنی بحث و مباحثوں سے فرصت نہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے آج کل “سوشل میڈیا” کو “ان سوشل میڈیا” بنا رکھا ہے اور دنیا کے سب سے آسان کام دوسروں پر اعتراض اور تنقید کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ذہن کو دو خانوں میں تقسیم کیا ہے جس میں ایک طرف انہی کے مطابق جو برے لوگ ہیں ان کو سمایا گیا ہے اور دوسری طرف اچھے لوگوں کو۔ اب جس کو برے والے خانے میں پرزے کی طرح فٹ کر دیا گیا ہے ان کے اچھے کاموں کو بھی نہیں مانا جاتا۔ کارکردگی جانچنے کی بجائے اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر حکمرانوں کو پرکھا جاتا ہے۔ چونکہ جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں پاکستان دو لخت ہوا۔ اسی وجہ سے انہیں پاکستان میں میں اکثریت کی جانب سے انتہائی برا اور ناکام حکمران تصور کیا جاتا ہے۔
جنرل یحییٰ خان 1965 میں جنرل ایوب خان کے بعد پاکستان کے بری فوج کے سپہ سالار بن گئے اور اگلے چھ سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ شکل و صورت کے لحاظ سے انتہائی خوبصورت آغا محمد یحییٰ خان پشاور کے بااثر اور معروف قزلباش خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان ایران سے آکر یہاں آباد ہو چکا تھا۔ جو فارسی النسل پختون ہیں۔ یحییٰ خان ایک سیکولر شیعہ مسلمان تھے۔ 25 مارچ 1969 کو صدر ایوب خان نے استعفیٰ دے کر اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کردیا اور یوں ملک میں دوسری مرتبہ ایک فوجی جنرل حکمران بنا۔

جنرل یحییٰ خان نے حکومت میں آتے ہی کئی مثبت کام کیے مثلاً کہ خیبرپختونخوا کے ساتھ واقع سوات دیر اور چترال کی ریاستوں کو پرامن طریقے سے پاکستان میں ضم کر دیا۔ بیرونی محاذ پر پاکستان نے اس وقت ایک بڑی کامیابی حاصل کی جب اسلامی ممالک نے او آئی سی کے نام سے الگ تنظیم قائم کی تو بھارت نے کروڑوں مسلمانوں کے وطن ہونے کے ناطے رکنیت کے لیے درخواست دی۔ مگر حکومت پاکستان کی پرزور احتجاج کے بعد تنظیم نے مجبوراً بھارتی وفد کو کانفرنس سے نکال باہر کیا۔ اسی طرح جنرل صاحب نے 1962 کے صدارتی آئین کو ختم کر کے قوم کو ایک متفقہ آئین دینے کا اعلان کیا۔
پاکستان میں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ 1970 کے انتخابات ملکی تاریخ کے پہلے عام اور سب سے شفاف انتخابات تھے۔ ان انتخابات کا انعقاد جنرل یحییٰ خان نے ہی کیا تھا۔ 1955 سے قائم ون یونٹ سسٹم کی وجہ سے مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے لوگ خوش نہیں تھے۔ جنرل صاحب نے اگلا قدم اٹھا کر ون یونٹ سسٹم کو ختم کرکے سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبوں کو بحال کر دیا۔ اکثریت لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ 1970 سے پہلے بلوچستان کو مکمل صوبے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ قیام پاکستان کے بعد 75 سالہ تاریخ میں اگر کوئی نیا صوبہ بنایا گیا ہے تو وہ بلوچستان کا صوبہ ہے۔ جو جنرل یحییٰ خان کا کارنامہ ہے۔

1971 میں جنرل صاحب نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے یکے بعد دیگرے کئی غلط فیصلے کیے۔ جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا اور جنرل صاحب کی حکومت کا جانا ٹھہر گیا۔ انتخابات کے بعد عوامی لیگ کا حق تھا کہ وہ حکومت بنائے کیونکہ انہیں 313 رکنی قومی اسمبلی میں 167 نشستوں کے ساتھ اکثریت حاصل تھی۔ مگر جنرل صاحب کی فوجی حکومت کسی بھی قیمت پر شیخ مجیب الرحمن کو وزیر اعظم کے عہدے پر دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ الٹا جب مشرقی پاکستان کے عوام نے فوجی حکومت کے رویے کے خلاف احتجاج، ہڑتال اور مظاہروں کا راستہ اپنایا تو مارچ 1971 میں حکومت نے مشرقی پاکستان کی عوام کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا۔ جس نے حالات کو بد سے بد تر کردیا۔ یہاں تک کہ نومبر میں میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور 16 دسمبر 1971 کو فوجی حکومت کی طرف سے فوج کو ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا گیا اور یوں وطن عزیز مشرقی پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا۔
اب جس طرح جنرل یحییٰ خان کے مثبت فیصلوں اور اقدامات کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے، عین اسی طرح ان پر پاکستان کا دو ٹکڑوں میں بٹ جانے کی زمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اگر چہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ صرف ایک سال کا واقعہ نہیں تھا۔
تاريخ پاکستان : کیا واقعی جنرل ایوب خان ملک کے سب سے اہل حکمران تھے