مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

پاکستان میں جب بھی ترقی کی موضوع پر بات ہوتی ہے۔ تو اکثر لوگ جنرل ایوب دور کی تیز ترین ترقی کی مثال دیتے ہیں۔ 1960 کی دہائی کو “ترقی کی دہائی” کہا جاتا ہے۔ مگر کیا اس دور میں سب اچھا تھا اور واقعی ملک ایشیائی ٹائیگر بننے جا رہا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر عوام ایوب حکومت کے خلاف سڑکوں پر کیوں آئیں؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہوا ایسا کہ 7 اکتوبر 1958 کو ملک کے پہلے صدر سکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کیا اور بری فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ صدر صاحب نے یہ بڑی غلطی کی کہ جس آئین کے مطابق وہ سربراہ ریاست تھے اس کو ہی ختم کر ڈالا۔ گویا کہ خود اپنے پیروں کے نیچے سے قالین کھینچ لی۔ یوں 20 دن بعد جنرل ایوب خان نے ان سے استعفیٰ لے کر لندن چلتا کیا اور خود اگلے دس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔
پابندیوں کا دور
آمریت کے اس طویل دور میں شخصی آزادیوں خصوصاً سیاسی آزادیوں پر پابندیاں عائد تھیں۔ جنرل صاحب نے پھرتی سے پوڈو اور ایبڈو کے نام سے دو قوانین کے ذریعے درجنوں سیاست دانوں پر نہ صرف پابندی عائد کی بلکہ ان سے جیل بھر دیے گئے۔ سیاسی جماعتوں کے سرگرمیوں پر قدغن لگایا گیا۔ کئی اخبارات مثلاً پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار کی اشاعت بھی بند کر دی گئی۔
بی ڈی نظام
جنرل صاحب نے 1959 میں ملک میں پہلی مرتبہ بنیادی جمہوریتوں کے نام سے بلدیاتی نظام رائج کیا۔ بالغ رائے دہی کے ذریعے 80000 بی ڈی ممبران کو منتخب کیا گیا۔ یہی بی ڈی ممبران صدر اور اسمبلیوں کو منتخب کرتے۔
صدارتی آئین
انیس سو باسٹھ میں پاکستان کا دوسرا آئین نافذ کر دیا گیا۔ جن کے مطابق ملک میں صدارتی نظام کو لاگو کر دیا گیا۔ اس آئین میں بنیادی انسانی حقوق شامل ہی نہیں تھے، جسے بعد میں عوامی ردعمل کے نتیجے میں شامل کیا گیا۔ اس آئین کے ذریعے تمام ریاستی و حکومتی اختیارات صدر ایوب خان کو مل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آئین کو ” One Man Constitution” کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک شخص کا بنایا ہوا آئین صرف ایک شخص کے فائدے کے لیے۔
انیس سو پینسٹھ میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ جن میں ایک جانب سے خود جنرل ایوب خان امیدوار تھے تو دوسری جانب سے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے محترمہ فاطمہ جناح کو امیدوار بنایا گیا۔ فاطمہ جناح کی جیت یقینی تھی مگر سرکاری سطح پر بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے جنرل صاحب کو جتوایا گیا۔ اگلے مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے بعد جنرل صاحب نے فوج کی کمان جنرل یحیٰی خان کے حوالے کیا۔ اسی سال ستمبر میں پاک بھارت جنگ بھی لڑی گئی۔ جو پاکستان کے کشمیر پر حملے سے شروع ہوئی تھی۔
تحریک بحالی جمہوریت
انیس سو چھیاسٹھ میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کی طرف سے اپنا چھ نکاتی ایجنڈا بھی پیش کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے اس فارمولے کو ملک دشمنی پر مبنی قرار دے دیا گیا، جس سے مستقبل میں ملک کو بہت نقصان ہوا۔ اسی سال وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان سے اختلافات کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اگلے سال لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ یہی دونوں پارٹیاں جنرل صاحب کی حکومت کو ہٹانے کی تحریک میں پیش پیش تھیں۔ جب تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بحالی کے لیے یک آواز ہو گئی۔ تو مہنگائی کے ستائے عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر کمانڈر انچیف یحیٰی خان نے صدر ایوب خان کو کہا کہ سر ہم آپ کو بہت miss کریں گے۔ یوں 25 مارچ 1969 کو صدر ایوب نے استعفیٰ دے کر اقتدار جنرل یحیٰی خان کے حوالے کیا۔ اور بحالی جمہوریت کے بجائے آمریت کا دوسرا دور شروع ہوا۔

معاشی ترقی
اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ اس دور میں پہلی مرتبہ معاشی ترقی کی شرح سات فیصد سے بڑھ گئی۔ برآمدات میں سالانہ سات فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا۔ 1960 سے 1965 تک صنعتی ترقی کی شرح 40 فیصد اور زرعی ترقی کی شرح 15 فیصد رہی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کے اہداف حاصل ہوئے ہیں ۔ اور وہ یہی جنرل ایوب خان دور کا (دوسرا) پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ تھا۔ اس دور میں تربیلا، منگلا اور ورسک کے مقام پر تین بڑے ڈیموں کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ اسلام آباد کے نام سے نئے دارالحکومت بسانے کا آغاز ہوا۔ سینکڑوں نئے کارخانے لگائے گئے۔ مینار پاکستان، باب خیبر اور مزار قائد جیسے قومی یادگار بھی تعمیر کیے گئے۔
اب آتے ہیں تصویر کی دوسری رخ کی طرف، صدر ایوب خان کی معاشی ترقی کا فائدے سے زیادہ نقصان ہوا۔ کیوں کہ وسائل کی تقسیم میں مشرقی پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی کی گئی۔ ان کو ترقی کے اس سفر میں نظر انداز کیا گیا۔ جس کی وجہ سے دونوں صوبوں کے درمیان خلیج مزید گہری ہو گئی۔ دھاندلی زدہ صدارتی انتخابات اور پاک بھارت جنگ کی وجہ سے ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا۔ یوں 1965 کے بعد معاشی ترقی کا گراف نیچے گرتا چلا گیا۔یعنی کہ یہ ترقی عارضی ثابت ہوئی۔

خارجہ پالیسی
جنرل ایوب خان کے دور میں بیرونی دنیا میں پاکستان کے قد میں اضافہ ہوا۔ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائی پانی کی تقسیم کردی گئی۔ مگر پاک بھارت جنگ کی وجہ سے دونوں ہمسایوں کے تعلقات انتہائی نچلے سطح پر چلے گئے۔ 1963 میں پاک چین سرحدی، تجارتی اور فضائی معاہدوں کے ذریعے ہمالیہ سے اونچی اس دوستی کی بنیاد رکھی گئی۔ آر سی ڈی کے نام سے پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان علاقائی تعاون کا معاہدہ ہوا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مثالی رہے۔ امریکہ کی مدد سے پاکستان کا خلائی پروگرام شروع کیا گیا۔ امریکہ ہی نے کراچی میں ملک کا پہلا ایٹمی پاور پلانٹ تعمیر کرایا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایوب خان ہی کو پاکستان کا امریکی غلامی میں لے جانے کا زمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ 1964 میں جاپان کی مدد سے لاہور سے پی ٹی وی نشریات کا آغاز بھی کیا گیا۔
اس دور میں پاکستان سکواش کے ساتھ ساتھ اب ہاکی کی دنیا میں حکمرانی کرنے لگا۔ اور دو مرتبہ اولمپکس میں گولڈ میڈل اور ایک مرتبہ سلور میڈل اپنے نام کیا۔ یہی نہیں بلکہ 1971 کے ورلڈ کپ فائنل میں سپین کو شکست دے کر چیمپئن بھی بنے۔ اردو کے مشہور شاعر فیض احمد فیض روس کا اعلیٰ ترین سول اعزاز لینن پرائز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی بنے۔
تاریخ پاکستان : کیا جنرل یحییٰ خان مکمل طور پر ناکام حکمران تھے
تاريخ پاکستان : پہلا جمہوری دور (1947-58)
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی دور حکومت: کیا اچھا کیا برا