تاريخ پاکستان : پہلا جمہوری دور (1947-58)

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

آزادی کے بعد ایک دہائی پر مبنی یہ دور خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ اور اس دور میں کیے گئے فیصلوں اور واقعات نے پاکستان کے مستقبل کا تعین کیا۔  کچھ واقعات نے تو پاکستان اور پاکستانیوں کا برا حال کردیا۔ مگر بعض مواقع پر پاکستانیوں کا سر فخر سے بھی بلند ہوا۔  آج کے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے کارکنان شدت سے ایک دوسرے کو ملک کے خراب سیاسی، معاشی و سماجی حالات کا زمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ہمیں گزشتہ 75 برس کے کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیکر اپنے آپ کو مسئلے کی  تہہ تک پہنچانا چاہیے۔

سیاست اور حکومت

تین جون 1947 کے منصوبے کے مطابق 15 آگست کو برصغیر کو دو آزاد ممالک بہارت اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسی دن یعنی 15 آگست کو  پاکستان کا پہلا گزٹ جاری ہوا۔ جس کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح کو ملک کا پہلا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ جبکہ لیاقت علی خان پہلے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ 30 ستمبر کو پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا۔

مہاجرین کا مسئلہ 

مذہبی بنیادوں پر برصغیر کی تقسیم کی وجہ سے 55 لاکھ ہندو اور سکھ بہارت چلے گئے۔ جبکہ 65 لاکھ مسلمان پاکستان آئیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر مہاجرین کی قتل عام کی شروعات کا الزام عائد کرتے ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو، مگر چار پاک بھارت جنگوں میں اتنے لوگ قتل نہیں ہوئے۔ جتنے اس موقع پر بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

کشمیر جنگ

ستائیس اکتوبر 1947 کو بھارت نے کشمیر پر حملہ کر دیا۔ جس سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اور جب اقوام متحدہ کی مدد سے جنگ بندی کرائی گئی۔ تو دنیا کی جنت کہلانے والی یہ ریاست بھارت اور پاکستان کے درمیان دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ اور یہی مسئلہ کشمیر آج بھی دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

باچا خان اور خدائی خدمتگار تنظیم کے خلاف کریک ڈاؤن

پاکستان کے پہلے قانون ساز اسمبلی میں  ممبران کی تعداد 79 تھی۔ تقسیم ہند کے مخالف اور پختون قوم کے حقوق کے علمبردار باچا خان بھی اس اسمبلی کے رکن تھے۔ جس نے اسمبلی کے اندر پہلے تقریر میں پاکستان سے وفاداری کا برملا اظہار کیا۔ قائد اعظم سے ملاقات کے دوران اپنے اس عہد کا اعادہ بھی کیا۔ باچا خان نے  عبدالصمد خان اچکزئی اور جی ایم سید کے ساتھ مل کر کراچی میں پیپلز پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ جس کے منشور میں آئین و قانون کی پاسداری، صوبائی خودمختاری، جمہوریت اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے، جیسی باتیں شامل تھی۔ مگر ابھی اس جماعت نے باقاعدہ طور پر کام بھی شروع نہ کیا تھا کہ اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ گویا کہ متوازی بیانیے کا پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دیا گیا۔ صرف یہ نہیں بلکہ خدائی خدمتگار تنظیم کو ملک دشمن قرار دے دیا گیا۔ باچا خان، ولی خان اور سینکڑوں خدائی خدمتگاروں کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ جو بغیر کسی جرم کے اگلے چھ، سات سالوں تک جیلوں میں رہیں۔ خدائی خدمتگار تنظیم کے خلاف کارروائیوں کے پیچھے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا عبد القیوم خان پیش پیش رہے۔

باچا خان

قائد اعظم کی وفات

گیارہ ستمبر 1948 کو قائد اعظم اس حالت میں انتقال کر گئے۔ کہ وفات سے چند گھنٹے پہلے جب اسے ائیر پورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس لے جایا جا رہا تھا۔ تو راستے میں ایمبولینس خراب ہوا۔ اور ملک کے بانی کو لینے کے لیے اگلا ایمبولینس دو گھنٹے میں پہنچا۔ اسی دوران فاطمہ جناح اپنے لاچار بھائی کے منہ سے مکھیاں اڑاتی رہی۔ خواجہ ناظم الدین اگلے گورنر جنرل بنے۔

انیس سو پچاس میں جنرل ایوب خان بری فوج کے پہلے مسلمان اور پاکستانی کمانڈر انچیف بنے۔ جو اگلے 15 سال تک اس عہدے پر براجمان رہے۔ 1954 میں اسے کمانڈر انچیف ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کا وزیر دفاع بھی بنایا گیا۔

لیاقت علی خان کی قتل

سولہ اکتوبر 1951 کو راوالپنڈی میں ایک جلسے کے دوران ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک افغان باشندے نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار نے ایک منٹ کے اندر اندر قاتل کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج تک یہ قتل ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

وزیراعظم لیاقت علی خان

گورنر جنرل غلام محمد کا دور

لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین اگلے وزیراعظم بنے اور ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ غلام محمد گورنر جنرل بنے۔ قدرت اللہ شہاب کے مطابق غلام محمد کا دور حکومت پاکستان کے لیے نحوست کا زمانہ تھا۔ جس نے ایک تو قانون ساز اسمبلی توڑنے کی منفی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ دوسرا کمانڈر انچیف ایوب خان کو کابینہ میں شامل کر کے وزیر دفاع بنالیا۔ تیسرا فالج کے حملے کے بعد گورنر جنرل صاحب وہیل چیئر پر آگئے۔ جبکہ انکا دماغ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ اور وہ اسی حالت میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بیرونی ممالک کے سربراہان سے ملتے رہیں۔ بالآخر 1955 میں مستعفی ہوئے اور ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل سکندر مرزا نئے گورنر جنرل بنے۔

گورنر جنرل غلام محمد

تئیس مارچ 1956 کو ملک کے پہلے آئین کو  نافذ کر دیا گیا۔ جو وفاقی، پارلیمانی نظام پر مبنی تھا۔ آزادی کے نو سال بعد بنا یہ آئین صرف ڈھائی سال چل سکا اور 7 اکتوبر 1958 کو گورنر جنرل سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر کے اس آئین کو ہی ختم کر ڈالا۔

یاد رہے کہ اس گیارہ سالہ دور میں پاکستان کے سات وزیراعظم تبدیل ہوئے۔ جس سے بآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی زندگی کے پہلے گیارہ سال کس طرح محلاتی سازشوں کا شکار ہوئے۔

معاشی ترقی

یکم جولائی 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ 1950 میں پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا رکن بنا۔ اسی سال پشاور یونیورسٹی اور اگلے سال کراچی یونیورسٹی کا افتتاح ہوا۔  1952 میں بلوچستان میں سوئی کے مقام پر گیس کا ایک بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا۔ 1955 میں پی آئی اے کے نام سے ملک کے پہلے ائیر لائن کا افتتاح کردیا گیا۔ اور اسی سال ملک کے پہلے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کا اجراء بھی کر دیا گیا۔ اس دور کے دو بڑے ترقیاتی منصوبے گدو بیراج اور کوٹری بیراج تھے۔

خارجہ تعلقات

پاکستان جس دور میں معرض وجود میں آیا، اس دور میں دنیا دو عالمی طاقتوں امریکہ اور روس کے درمیان دو مخالف بلاک میں تقسیم ہوچکی تھی۔ پاکستان نے 1950 میں امریکی بلاک میں شامل ہوکر روس کو اپنا دشمن بنا دیا۔ یہ دور پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستی کا دور تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو فوجی و معاشی امداد فراہم کی۔ جبکہ پاکستان نے امریکہ کو بڈھ بیر ائیربیس دے کر روس کے خلاف جاسوسی میں مدد فراہم کی۔ 

کشمیر جنگ اور بھارت کی طرف سے پاکستانی دریاؤں کی پانی کو بند کرنے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات مثالی تو نہیں تھے لیکن آج کی طرح کشیدہ بھی نہیں تھے۔ کیوں کہ دونوں ہمسایوں کے درمیان بڑی پیمانے پر تجارت ہو رہی تھی۔ اور سرحد کے آر پار جانے کے لیے ویزے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔

افغانستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد نہ ماننے کی وجہ سے دونوں برادر ممالک کے تعلقات انتہائی نچلے سطح پر تھے۔

بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ آج فخر سے جس پاک چین دوستی کا ذکر ہو رہا ہے۔ آزادی کے پہلے دس بارہ سال تک یہ تعلقات انتہائی خراب تھے۔ جن کے وجوہات پاکستان کا امریکہ کا اتحادی بننا، بھارت چین دوستی اور پاک چین سرحدی کشیدگی تھیں۔

کھیل

پاکستان نے آزادی کے چند سال بعد ہی سکواش کی دنیا پر حکمرانی شروع کی۔ جو اگلے پانچ دہائیوں تک جاری رہی۔ بین الاقوامی ایونٹس میں پاکستان سے ٹرافی جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ پشاور کے ہاشم خان اور اعظم خان اس دور کے بڑے کھلاڑی تھے۔

اسی دور میں پاکستان نے کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔ اور دوسرے ہی ٹیسٹ میچ میں بھارت کو شکست سے دو چار کر دیا۔ جبکہ اپنے پہلے بیرونی دورے میں انگلینڈ جیسے مضبوط ٹیم کو  ایک ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر پوری دنیا کے کرکٹ فین کو حیرت میں مبتلا کردیا۔

اسی دور میں فلمی صنعت سے وابستہ ہنرمندوں کو سراہنے کے لیے نگار ایوارڈ کا اجراء کیا گیا۔

وفات پانے والے نامور پاکستانی

اسی دور میں وفات پانے والے نامور پاکستانیوں میں قائد اعظم، لیاقت علی خان، عبد الجبار خان، آغا خان، سردار عبد الرب نشتر اور ادب سے وابستہ سید سلیمان ندوی اور سعادت حسن منٹو شامل تھے۔ 

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی دور حکومت: کیا اچھا کیا برا

تاریخ پاکستان : کیا جنرل یحییٰ خان مکمل طور پر ناکام حکمران تھے

تاريخ پاکستان : کیا واقعی جنرل ایوب خان ملک کے سب سے اہل حکمران تھے

1 thought on “تاريخ پاکستان : پہلا جمہوری دور (1947-58)”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *