مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )
ساتویں سے سترہویں صدی عیسوی تک کا زمانہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا اسی دور میں مسلمان سیاسی، معاشی، سماجی اور علمی لحاظ سے دنیا میں ایسے مقام پر تھے جیسا کہ آج کا امریکہ۔ اسی زمانے میں بغداد، بصرہ، کوفہ، دمشق، قاہرہ اور مدینہ علم کے مراکز تھے۔ پوری دنیا سے لوگ اعلی تعلیم کی حصول اور مخصوص تعلیمی میدان میں اپنے آپ کو منوانے کے لئے ان شہروں کا رخ کرتے تھے۔ یہاں امام ابوحنیفہ، شیخ سعدی، رومی، ابن عربی، امام غزالی، امام رازی، عمرخیام، الخوارزمی، البیرونی، ابن سینا اور جابر بن حیان جیسے مکان اور زمان سے آزاد لوگ پیدا ہوئے جو اپنے علمی کارناموں کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں۔ ان بڑے لوگوں میں ایک نام بارہویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والے بغداد کے عبدالرحمن بن علی تھے جو علمی دنیا میں ابن جوزی کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ ادب، تاریخ، فقہ، حدیث اور تفسیر میں بے مثال تھے آپ نے تین سو چالیس کتابیں لکھیں جن میں بعض 20، 20 جلدوں پر مشتمل تھیں۔ تقویٰ کے لحاظ سے آپ کا یہ حال تھا کہ آپ کے ہاتھوں 20 ہزار کافر مسلمان ہوئے جبکہ ایک لاکھ مسلمان گناہوں سے توبہ تائب ہوئیں۔ موت کے بعد آپ کے قلم کے تراشوں سے غسل کے لئے پانی کو گرم کیا گیا اور پھر بھی ایک حصہ بچ گیا۔
آپ کی بے مثال کتابوں میں ایک کتاب “احمقوں کا بیان” ہے۔ اس کتاب میں آپ نے بیوقوفوں کے بارے میں بہت عجیب عجیب حقیقتیں بیان کی ہے اس بلاگ میں آپ کے سامنے ان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ احمق کو احمق اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اپنے کلام کو ممتاز نہیں کر سکتا یا اس کا مقصود صحیح ہوتا ہے لیکن مقصود تک پہنچنے کا طریقہ ٹھیک نہیں ہوتا۔
حماقت فطری چیز ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا میں مردوں کو زندہ اور پیدائشی اندھوں کو بینا کر سکتا ہوں لیکن حماقت کی علاج نہیں کر سکتا۔

احمقوں کی جسمانی نشانیاں
ابن جوزی نے احمقوں کی جسمانی نشانیاں بھی بیان کی ہے جن میں چھوٹا سر، چھوٹی گردن، گوشت سے بھری پیشانی، بڑا پیٹ، موٹی پنڈلیاں، چھوٹی انگلیاں اور گول چہرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ضروری نہیں کہ ایک شخص میں یہ ساری نشانیاں موجود ہوگی تو وہ بے وقوف ہوگا۔
احمقوں کی عادات و اعمال
بیوقوف لوگ ایسے شخص پر بھی بھروسہ کرتے ہیں جسے یہ جانتے تک نہیں، یہ لوگ باتیں زیادہ کرتے ہیں، ان کاموں میں بھی دوسروں پر غصہ کرتے ہیں جو کام یہ خود کرتے ہیں، جلد بازی بھی بیوقوفی کی ایک نشانی ہے، یہ لوگ محفل کے دوران کثرت سے ادھر ادھر متوجہ ہوتے رہتے ہیں، جھوٹی تعریف پر خوش ہوتے ہیں، خود پسندی کی وجہ سے متکبر اور مغرور ہوتے ہیں اور آخرت سے بے پروا ہوتے ہیں۔
احمقوں کے بارے میں حدیث نبوی
احمق کے ساتھ بھائی بندی نہ کرو اس لیے کہ وہ مشورہ تیرے خلاف دے گا، خود کوشش کرے گا تو غلطی کر بیٹھے گا، بسا اوقات آپ کو نفع پہنچانا چاہے گا لیکن حماقت کی وجہ سے نقصان پہنچا دے گا، احمق کا چپ رہنا اس کے بولنے سے بہتر ہے، اس کا دور رہنا اس کے قرب سے بہتر ہے اور اس کا مر جانا اس کی زندگی سے بہتر ہے۔

بے وقوفوں کے چند واقعات
ابن جوزی کے مطابق سب سے بڑا بے وقوف ابلیس ہے جس نے اپنی انا اور تکبر کی خاطر اپنی چھ لاکھ سال کی عبادت ضایع کر دی۔ اسی طرح آپ ذکر کرتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب آپ کی خون آلود قمیض اپنے باپ یعقوب علیہ السلام کو پیش کر دی تو اس پر خون تو رنگ دیا گیا تھا لیکن اسے پھاڑا نہیں گیا تھا۔ بعض اوقات ایک پوری قوم ایک بیوقوفی میں مبتلا ہوتی ہےجیسا کہ عیسائی ایک طرف عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ یہودیوں نے آپ کو قتل کر دیا ہے۔ آپ ایک دوسرا واقعہ بھی ذکر کر رہے ہیں کہ ایک قاضی نے ظالم اور مظلوم دونوں کو سزاوار قرار دے دیا اور پھر کہنے لگے کہ “یا خدا تیرا شکر ہے کہ ظالم مجھ سے نہ بچ سکا اگر چہ مظلوم کو بھی سزا ملی۔
ہم کہاں پر کھڑے ہیں
میرے خیال سے ہم جو بھی ایسا کام کر رہے ہیں جن میں نہ ہماری بھلائی ہے نہ معاشرے کی، یا گناہوں میں زندگی گزارنا، یا وہ کام جو کرتے وقت تو اچھے لگ رہے ہیں مگر ان کے انجام برے ہوتے ہیں ان میں مشغول ہونا، بے وقوفوں کا صحبت اختیار کرنا سب بے وقوفی ہے۔ ہمیں اس حوالے سے ضرور سوچنا چاہیے۔
مادیت بمقابلہ روحانیت، یہ روحانیت کیا چیز ہے
میچوریٹی کیا ہے، میچور کون ہے، میچور شخص کی بارہ نشانیاں
Bohat Aala sir G
Zabardast seba
Appreciated
How can somebody compile signs of idiocy? It will always be biased due to human psychology. For example; if I was to write about traits of an idiot, I would put all the traits which I don’t have. Thus, satisfying my ego and validating myself 😂.
You are right my beloved bro, in fact this blog is the highlights of book 📖 “Ahmaqo Ka bian” and all the ideas of an author could not be 100% true.
Dil chasp