بیلنس زندگی کیسے گزاریں

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

دنیا میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف پیسہ کمانے کے چکر میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ پیسے زیادہ کمانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر یا تو اپنی صحت کھو دیتے ہیں یا معاشرے میں ان کی عزت و شناخت باقی نہیں رہتی اور یا ان کے رشتے خراب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ صرف تعلقات بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہوتے ہیں، سماجی لحاظ سے اگرچہ وہ کامیاب ہو بھی جاتے ہیں مگر ان کی مالی حالت کمزور رہ جاتی ہے۔ ہمارے ملک کے اکثر ادیبوں اور شاعروں کا یہی حال ہوتا ہے۔ کچھ لوگ سماجی و مالی دونوں لحاظ سے بہترین پوزیشن میں ہوتے ہیں مگر وہ مذہبی اور روحانی لحاظ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم ایک ایسی زندگی کیسے گزارے کہ ان تمام پہلوؤں پر یکساں کام کرکے ایک متوازن شخصیت کی روپ میں سامنے آئے۔

روزگار کرنا

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کو سمجھنا پڑے گا کہ ایک پرسکون اور باعزت زندگی گزارنے کے لئے پیسے کی اہمیت تسلیم شدہ ہے۔ پیسہ کمانے کے لئے ہمیں ہنر سیکھنے ہونگے، تعلیم حاصل کرنی ہوگی اور روزگار کرنی ہوگی۔ یہ ہماری زندگی کا معاشی پہلو ہے۔

پیسوں سے اہم کیا؟

لیکن اس بات کو سمجھنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ دنیا میں کئی چیزیں پیسے سے بھی زیادہ اہم ہیں مثلاً زندگی، صحت، عزت، رشتے اور ایمان وغیرہ۔ تو ظاہر بات ہے کہ ان تمام کو اپنی جگہ پر وقت دینا ہوگا۔

زندگی

زندگی قیمتی ہے، ایک بار ملتی ہے۔ پس اس کے ایک ایک لمحے کی قدر کرنی چاہیے۔ زندگی کو اس طرح گزارنا ہے کہ وہ صرف ہمارے لئے فائدہ مند نہ ہو بلکہ ہم سے جڑے ہوئے لوگوں کے لئے بھی فائدہ مند رہے۔ یہی تو اس بلاگ کا عنوان ہے کہ ایک بیلنس زندگی کیسے گزارے۔

صحت

صحت کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے روزانہ کے حساب سے جسمانی سرگرمی ( ورزش، کھیل کود ) کرنا لازمی ہے۔ اس کے ساتھ مضر صحت غذاؤں کے بجائے صحت بخش غذائیں (سبزیاں، پھل، گوشت، دالیں) ایک توازن کے ساتھ کھانی چاہیے۔ اگر ہم آج صحت کا خیال نہ رکھیں تو پچاس سال تک پہنچنے کے بعد پھر صحت کے بے شمار مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

عزت

یاد رہے کہ عزت کمانا پیسے کمانے سے مشکل کام ہے۔ اپنا ایک پروفائل بنانے کے لیے آپ کو پوری زندگی دینی پڑتی ہے۔ سماجی ذمہ داریوں جیسا کہ اپنوں کی غم خوشی میں شریک ہونے، بیماروں کی عیادت کرنے، ضرورت پڑنے پر دوسروں کے مالی و بدنی خدمت کے لئے پیش ہونے کے لیے بھی اپنی مصروفیات سے وقت نکالنا بہت ضروری ہے کیونکہ خدمت پر خدا ملتا ہے۔

رشتے

کیا ہم اس شخص کو کامیاب کہہ سکتے ہیں جو کروڑ پتی ہو مگر ان کے رشتوں کا ستیاناس ہو چکا ہو۔ بانو قدسیہ نے ایک دفعہ انٹرویو کے دوران کہا کہ بدقسمتی سے ہم مشہور لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مناسب وقت نہیں دے سکتے اور پھر جب ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں تو وہ بھی ہمیں وقت نہیں دیتے۔

والدین، بہن بھائیوں، بیوی بچوں سے کوئی بھی چیز اہم نہیں ہو سکتی۔ اگر روزانہ کی بات ہو تو ہمیں شام کے بعد کا وقت گھر والوں کے لیے مختص کرنا چاہیے اور اگر ہفتہ وار بات کی جائے تو پھر ویک اینڈ فیملی کے لئے مختص ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ غریب وہ ہوتا ہے جن کے دوست نہیں ہوتے تو ایک ترتیب کے ساتھ اپنے ٹائم ٹیبل میں دوستوں کے لئے بھی وقت مختص کرنا ہوتا ہے۔

خدمت و عبادت

مذہبی حلقوں کی طرف سے اکثر اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ دنیاوی عہدے، دولت، عزت، شہرت مرنے کے بعد یہاں دنیا میں رہ جاتے ہیں یعنی کہ یہ تمام کامیابی صرف مرنے تک کی کامیابی ہے۔ یہ بات جزوی طور پر صحیح ہے کیونکہ اگر ان دنیاوی عہدوں اور اثرورسوخ کا استعمال اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی فائدے کے لئے کیا جائے تو پھر یہ کامیابی صرف اس دنیا تک محدود نہیں رہتی۔

جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی شخص نے ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ مسلمان روزانہ کتنے وقت تک عبادت کرتے ہیں؟ تو علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ 24 گھنٹے۔ اس شخص نے حیرانگی کے ساتھ پوچھا یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہم اپنی زندگی خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے ساتھ گزارتے ہیں اسی وجہ سے ہمارا ہر کام عبادت ہے۔ ہمیں بھی اپنی زندگی عین اسی طرح ترتیب دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرض نمازوں، روزوں، زکوۃ، حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا چاہیے ۔

یہاں تک ہم نے ایک زاویے سے متوازن زندگی گزارنے کا ایک فارمولا بیان کیا۔ دوسرے زاویے سے ہمارا بیان ہماری صلاحیتوں سے متعلق ہے۔ دراصل خدا نے ہمیں چار صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری صلاحیتوں کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یہ چار صلاحیتیں ہمارے ذہن، جسم، جذبات اور روح سے متعلق ہیں۔ ہمیں چاروں کو برابر وقت دینا چاہیے۔ اگر ہم ایک صلاحیت پر کام کرکے ان کو خوب پروان چڑھائے مگر دوسرے پر بالکل یا بہت کم کام کریں تو پھر بیلنس باقی نہیں رہتا۔ ہمیں اپنے لیے اہداف مقرر کرتے وقت ان چاروں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔

ذہنی ترقی

ذہنی ترقی کے لیے مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ہماری علمی ترقی ہے۔ ہماری علم ہماری رائے، رویے بلکہ مکمل شخصیت کے لیے خام مال کا درجہ رکھتی ہے۔ یعنی کہ ہمارا عمل اور ردعمل ہمارے علم کے مطابق ہوتے ہیں ۔

جسمانی نشوونما

جسمانی نشونما صحت سے متعلق ہے جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔

جذباتی ذہانت

یہ الفاظ آج کل ہم موٹیویشنل سپیکر کے منہ سے بار بار سنتے ہیں مگر اس کے مطلب جاننے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور جب ہمیں اس کی سمجھ آجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ذہانت سے کوئی دوسری ذہانت اہم نہیں ہو سکتی۔ ذہانت سے مراد اپنے جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت ہے۔ غم، خوشی، تنہائی، بھیڑ، غصہ، جنگ، غرض ہر حالت میں ہمارا جذباتی ردعمل کیا ہوتا ہے یہی ہماری جذباتی ذہانت کی سطح ہوتی ہے۔ اگر ہم بھی جہالت کرنے والوں کے ساتھ جاھل بن جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہ صلاحیت مکمل طور پر صفر ہے۔ بیلنس زندگی گزارنے کے لیے اس صلاحیت پر اتنا کام کرنا ہے جتنا کہ ان کی اہمیت ہے۔

روحانی ترقی

روحانیت کے بارے میں لکھے گئے بلاک میں ہم نے تذکرہ کیا ہے کہ انسان دراصل دو چیزوں سے بنا ہے ایک بدن اور دوسرا روح۔ اب ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ ہم 24 گھنٹے میں بدن کو کتنا وقت دیتے ہیں یعنی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتنا کام کرتے ہیں اور روح کو کتنا وقت دیتے ہیں۔ روح کا تعلق انسان کے اندر سے ہے۔ روح کا تعلق آسمان اور قیامت کے بعد کی زندگی سے ہے۔ حسد، تکبر، لالچ، خود غرضی اور دنیا سے محبت بیمار روح کی نشانیاں ہیں جبکہ صبر، شکر، ہمدردی، محبت، خدمت اور عبادت روحانی ترقی کی نشانیاں ہیں۔

دراصل اپنی زندگی میں دنیا کے تمام چیزوں کی اہمیت کو اپنی اپنی جگہ پر سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔ متوازن زندگی گزارنے کے لیے یہی کام کرنا ہوتا ہے۔

سیاسی نظام کیا ہوتا ہے؟ سیاسی نظام کی بناوٹ اور کام

پاکستان میں پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے پارلیمان کمزور کیوں ہے؟

پاکستان کی 75 سالہ کامیابیوں پر ایک نظر

3 thoughts on “بیلنس زندگی کیسے گزاریں”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *