بلوچستان بمقابلہ ریاست پاکستان ؛ کل اور آج

مصنف : عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر )

آئین پاکستان کے مطابق پاکستانی وفاق چار صوبوں اور تین وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے ۔ چار صوبوں میں ایک صوبہ بلوچستان بھی شامل ہے ۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے ۔ اس صوبے کا رقبہ ملک کے مجموعی رقبے میں 43 فیصد بنتا ہے ۔ 2017 کے مردم شماری کے مطابق صوبے کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ تھی ۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ ملک کے 10 بڑے شہروں میں شامل ہے ۔ بلوچستان کی اہمیت یہاں معدنیات کے وسیع ذخائر اور ساحل سمندر ہے ۔ اس صوبے کے اندر ریکوڈک اور سینڈک میں سونے ، تانبے اور لوہے کے ذخائر موجود ہیں مگر سب سے زیادہ غربت بھی اسی صوبے میں ہے۔

پہلا شورش

بلوچستان میں شورش کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنا کہ پاکستان کی عمر ہے ۔ قیام پاکستان کے وقت صوبے کے اندر چار شاہی ریاستیں تھیں جس میں سے تین خاران، مکران اور لسبیلہ نے بخوشی ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا مگر قلات کے ریاستی حکمران احمد یار خان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور یہی انکار ریاستی فوج اور پاک فوج کے درمیان جھگڑے میں تبدیل ہوئی ۔ پاکستان نے قلات کو بزور طاقت قبضہ کر دیا ۔

دوسرا شورش

اس شورش کی وجہ ون یونٹ سسٹم تھا ۔ نواب نوروز خان نے اس نظام کی مخالفت میں جنرل ایوب خان حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے ۔ 1958-59 کے اس ملٹری آپریشن میں نواب صاحب کو اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار کر دیا ۔ آپ کے گھرانے کے پانچ افراد کو پھانسی پر چڑھایا گیا جبکہ آپ خود حیدرآباد جیل کے اندر اپنی طبعی موت مرے۔

قائد اعظم ریزیڈنسی زیارت

لڑائی کے خاتمے پر جنرل ایوب خان نے بلوچستان کے کئی مقامات پر فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کا فیصلہ کیا ۔ بلوچ سرداروں کی جانب سے اس اقدام کی مخالفت کر دی گئی اور مری قبیلہ کے سردار محمد بجرانی مری کی قیادت میں ایک گوریلا جنگ شروع کر دی گئی ۔ یہ شورش 1963 سے جنرل ایوب خان کے استعفے تک جاری رہی۔ جنرل یحیٰی خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کردیا اور بلوچستان کو مکمل صوبے کی حیثیت دے دی گئی جس کے جواب میں بلوچ سرداروں نے جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

تیسرا شورش

وزیر اعظم بھٹو نے 1973 میں بلوچستان حکومت کو برطرف کر دیا جس کے جواب میں نواب خیر بخش مری نے بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ کے قیام کا اعلان کر دیا ۔ مری اور مینگل قبائل کے نوجوانوں نے ریاست کے خلاف جنگ شروع کی اس چار سالہ خانہ جنگی میں ہزاروں جنگجو اور شہری قتل ہوئے۔

چوتھا شورش

جنرل ضیا کے اقتدار سنبھالنے اور اس کے بعد بھی طویل عرصہ تک صوبہ میں حالات پر امن رہے ۔ مشرف دور میں نواب اکبر بگٹی اور بالاچ مری کی جانب سے ایک پندرہ نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا گیا جس کے اہم نکات صوبے کے وسائل پر بلوچوں کا اختیار اور فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کو روکنا تھے ۔

مشرف نے مذاکرات کے بجائے طاقت کے استعمال کا راستہ اپنایا اور اگست 2006 میں نواب اکبر بگٹی کو ایک فوجی آپریشن کے دوران قتل کر دیا گیا ۔ قوم پرست رہنما کو نشانہ بنانا کوئی چھوٹی غلطی نہیں تھی ۔ یہی غلطی اس چوتھے اور ایک طویل بدامنی کے دور کا نقطہ آغاز ثابت ہوا جو ماہرین سیاسیات کے مطابق کسی نہ کسی شکل میں اب بھی جاری ہے ۔

کویٹہ شہر کا رات کو لیا گیا عکس

اس مرتبہ بلوچوں کا ردعمل انتہائی خطرناک ثابت ہوا جس نے باقاعدہ ریاست پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کی شکل اختیار کی ۔ اگست 2009 میں خان آف قلات میر سلیمان داؤد نے اپنے آپ کو صوبے کا حکمران قرار دے کر آزادی کا اعلان کر دیا۔

صوبے کے اندر غیر بلوچ افراد خصوصاََ پنجابی بولنے والوں کو بسوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا ۔ ریاست پاکستان کے اثاثوں کو بم دھماکوں کے ذریعے اڑایا گیا ۔ ریاست سے نفرت کا کھل کر اظہار کردیا گیا۔

مشرف کے بعد کے حالات

مشرف کی طاقت کے استعمال کی پالیسی ان کے جانے کے بعد بھی جاری رہیں کیونکہ بلوچستان صوبائی حکومت کے کنٹرول میں کم اور وفاقی حکومت خصوصاً ملٹری اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں زیادہ ہوتا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے رپورٹس کے مطابق حکومتی اداروں کی جانب سے ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کر دیا گیا ۔ جس میں سینکڑوں کو سپریم کورٹ اور عوامی دباؤ کی وجہ سے بازیاب بھی کرا دیا گیا مگر پھر پلوں کے نیچے پانی بہہ چکا تھا۔

حکومت پاکستان کا موقف

حکومت پاکستان کی طرف سے بھارت اور افغانستان پر بلوچستان میں شورش کو ہوا دینے کے الزامات عائد کیے گئے ان الزامات میں صداقت بھی ہو سکتی ہے مگر حقیقت میں آج تک ریاست کی طرف سے بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا گیا ہے اور جب تک بلوچستان کے ساتھ کالونی جیسا طرز عمل اختیار رکھا جائے گا یہ مسئلہ جاری رہے گا۔

پاکستان اور بلوچستان کا نقشہ

ترقیاتی کام

وفاقی حکومت اور فوج کی جانب سے بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی خاطر پچھلے دو دہائیوں میں معیاری تعلیمی ادارے ، بڑے بڑے سڑک اور ہسپتال قائم کیے گئے، گوادر بندرگاہ کے آپریشنل ہونے کے بعد شہر میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام جاری ہیں، ہزاروں نوجوانوں کو فوج میں بھی بھرتی کیا گیا ہے ، مگر پھر بھی بلوچوں کے اندر ایک احساس محرومی پائی جاتی ہے جن کے بڑے وجوہات یہ ہیں کہ

بلوچستان آج بھی ترقی کے لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے، صوبے کے اقتدار و اختیار کے اصل مالک فوجی جنرل ہوتے ہیں، معدنی ذخائر سے صوبہ اور اس کے عوام کا فائدہ ہونے کی بجائے پنجاب کا فائدہ ہورہا ہے ، اور اس نا انصافی پر آواز اٹھانے والوں کو ملک دشمن قرار دے کر غائب کر دیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے کو روکنا بلوچستان کے مسائل کا حل ہے۔

فلسفہ کسے کہتے ہیں، فلسفی کون ہوتا ہے؟ جانئیے۔

تیس سال پہلے اور آج کا پاکستان

پاکستان کی آئینی تاریخ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *