برطانوی سامراجیت: انگریزوں نے کس طرح ہندوستان پر حکومت کی

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

میرے خیال سے تو دنیا کی سب سے بڑی حقیقت “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” ہے۔ دنیا کی تاریخ کو جھنجھوڑ دیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب بھی کوئی قبیلہ یا قوم طاقت پکڑتی تو اس کا دوسرا کام اپنے سے کمزور قبیلوں و اقوام پر حملے کر کے انہیں اپنا غلام بنانا ہوتا۔ یورپ میں سب سے پہلے یہ کام یونان نے شروع کیا تھا اگرچہ وہاں فیثاغورث، سقراط، افلاطون اور ارسطو کی شکل میں دنیا کے بہترین دماغ موجود تھے لیکن وہ پھر بھی جنگوں کے ذریعے دوسرے ممالک پر قبضہ کرنے کو اپنا حق قرار دے رہے تھے۔ روم، فارس، عربوں، منگولوں، ترکوں اور بعد کے زمانے میں اسپین، پرتگال، ہالینڈ، برطانیہ فرانس، روس اور جاپان نے یہی راستہ اختیار کیا۔

برطانیہ ایک عالمی طاقت کے طور پر

سلطنت روم کے زوال کے بعد یورپ صدیوں تک جہالت، غربت و پسماندگی کے اندھیروں میں ڈوبا رہا جسے “تاریکی کا دور” کہا جاتا ہے۔ سولہویں صدی عیسوی سے حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے اور لوگ علم و تہذیب کے راستوں پر نکل پڑے۔ صنعتی انقلاب نے ترقی کے سفر کو پہیئے لگا دئیے۔ سپرپاور کا درجہ حاصل کرنے کے لیے یورپی اقوام پہلے یورپ میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے اور کئی خونی جنگیں لڑی گئیں اور پھر یورپ سے باہر کالونیاں بنانے کی دوڑ میں لگ گئے۔ اس دوڑ میں برطانیہ سب پر سبقت لے کر ہندوستان سے آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ سے امریکہ و کینیڈا تک کے ممالک پر قبضہ کر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں برطانوی حکمران اور باشندے فخر سے کہتے رہتے تھے کہ “ہماری سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا”۔ یعنی ایک جگہ رات ہو تو دوسری جگہ دن کا وقت ہوتا ہے۔

برطانیہ کا ہندوستان آمد

برطانیہ سے پہلے پرتگال، ہالینڈ اور فرانس نے بھی ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لیے مہم بھیجے تھے انہوں نے کئی علاقے قبضہ میں بھی لیے تھے۔ انگریز مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں تجارت کے لیے ہندوستان آئے تھے۔ 1707 میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو برطانوی تجارتی ادارے “ایسٹ انڈیا کمپنی” کے اہلکاروں نے دنیا کے اس سب سے مالدار ملک پر قبضہ کرنے، حکومت کرنے اور یہاں کے مال و دولت کو لوٹنے کے خواب دیکھنا شروع کئے۔ انہوں نے اپنی ایک فوج بنائی، قلعے تعمیر کئے اور 1757 میں بنگال پر قبضہ کرکے ایک بڑی کامیابی حاصل کی۔

انگریزوں کا بنگال میں لوٹ مار

بنگال کے فاتح رابرٹ کلائیو اور ان کے حواریوں نے 1757 سے 1765 تک بنگال کی کٹھ پتلی نوابوں (میر جعفر خاندان) سے دو لاکھ پاؤنڈ کا بھتہ وصول کیا۔ کلائیو کے پاس ایک جاگیر بھی تھی جن کی سالانہ آمدن 27000 پاؤنڈ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چند سالوں میں یورپ کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی پچاس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ جن کی بنگال کے دو کروڑ لوگوں پر حکومت تھی اور ان کی سالانہ آمدن پانچ سے چھ کروڑ روپے تھی۔ 1769 میں بنگال میں ایک ایسا قحط آیا کہ ایک تہائی آبادی ہلاک ہوچکی۔ لوگ اپنے بچے بیچنے لگیں یا مردوں کے گوشت کھانے لگیں۔ ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ٹیکس میں 10 فیصد اضافہ کر دیا اور ٹیکس کی وصولی میں ان لوگوں پر بھی تشدد کیا گیا جو بھوک کی وجہ سے مرض الموت کے شکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1771 کی سالانہ آمدنی 1768 کی سالانہ آمدنی سے زیادہ تھی اگرچہ کاشت اور پیداوار کم ہوئی تھی۔

جنگ آزادی 1857 کے بعد کے حالات

اٹھارہ سو ستاون تک انگریز دہلی کے علاوہ پورے ہندوستان پر قابض ہو چکے تھے۔ دہلی میں ابھی تک آخری مسلم حکمران بہادر شاہ ظفر تخت پر بیٹھے تھے اگرچہ ان کی حکومت صرف لال قلعہ تک محدود تھی۔ اسی سال ہندوستانیوں کی طرف سے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک آخری قدم اٹھایا گیا جسے تاریخ میں جنگ آزادی 1857 کہا جاتا ہے۔ ہندوستانیوں کو ناکامی کی منہ دیکھنا پڑی جس کے بعد پورے ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی۔ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو رنگون میں قید کردیا گیا جہاں وہ جیل میں ہی وفات پاگئے۔ ان کے آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹوں یعنی شہزادوں کو قتل کر دیا گیا جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کو چن چن کر قتل کر دیا گیا، لوگوں کو توپ کے نالوں سے باندھ کر اڑا دیا گیا، ان کے کاروبار اور جائیداد بھی ضبط کیے گئے۔

انگریزوں کا طرزِ حکومت

پورے ہندوستان کا کنٹرول وائسرائے ہند یعنی گورنر جنرل کے کنٹرول میں ہوتا تھا وہ برطانوی حکومت کے مقرر کردہ نمائندہ ہوتا، ہر صوبے کا اپنا گورنر ہوتا، ڈپٹی کمشنر ضلع کا سربراہ ہوتا تھا، یہ اور اس کے علاوہ باقی تمام اہم عہدوں پر انگریز براجمان ہوتے تھے۔ 1935 کے انڈیا ایکٹ کے لاگو ہونے تک ہندوستانیوں کی اسمبلیوں اور بیوروکریسی میں شمولیت انتہائی کم تھی۔

بغاوت کی ڈر کی وجہ سے ہر شہر اور گاؤں میں انگریزوں کے ایجنٹ مقرر کیے گئے تھے یہ اکثر مقامی سطح پر بااثر لوگ ہوتے تھے جن کو حکومت کی طرف سے جاسوسی اور مخبری کے پیسے دیے جاتے تھے۔

نسلی امتیاز

برطانیہ کے سب سے مشہور وزیراعظم ونسٹن چرچل کہا کرتے تھے کہ ہندوستانی اور چینی دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ ہندوستان میں نئے تقرر پانے والے انگریزوں کو یہ بات سمجھائی جاتی تھی کہ “ہم” یعنی “انگریز” آقا ہیں اور ہندوستانی غلام ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرنا چاہئے کہ ان کے ذہنوں میں ہماری برتری کا احساس قائم رہے یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے لئے الگ ہوٹل، ریسٹورنٹ، کھیل کے میدان، پارک اور کلب قائم کیے گئے تھیں اور ہندوستانیوں کا وہاں داخلہ ممنوع تھا۔ انگریز بچوں اور ان کے ایجنٹوں کے بچوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے قائم تھیں۔ انگریز افسران صبح جاگتے تو نہانے کے بعد ملازمین قطاروں میں کھڑے ہو کر ان کو جرابیں، بوٹ پہنانے، ناشتہ پیش کرنے، ان کے کان صاف کرنے تک کام کرتے، جہاں سے گزرتے تمام ملازمین انہیں جھک کر سلام کرتے، رات کو جنسی بھوک مٹانے کے لیے انہیں ایک خاتون مہیا کی جاتی۔ بہت کم انگریزوں نے یہاں شادیاں کی تھیں۔ جنہوں نے یہاں شادیاں کیں تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کو “اینگلو انڈین” کا نام دیا گیا تھا۔ چند ایک کے علاوہ انگریزوں نے کبھی بھی اپنے ہندوستانی بچوں کو اپنے انگریز بچوں کا برابر درجہ نہیں دیا۔ انگریزوں کے رخصت ہونے کے بعد انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا انہیں وراثت میں یا تو بالکل حصہ نہیں دیا گیا یا کم دیا گیا۔

معاشی استحصال

انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ کرنے سے پہلے اس ملک کا دنیا کی معیشت میں حصہ 25٪ تھا۔ یہ دنیا کا سب سے مالدار ملک تھا جہاں عرب لوگ بھیک مانگنے آیا کرتے تھے۔ مگر انگریزوں کے جانے کے وقت اس ملک کا دنیا کی معیشت میں حصہ 3 فیصد تک گر چکا تھا۔ یہ غربت، جہالت اور بھوک کا ایک تصویر بن چکا تھا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ انگریزوں نے کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرح یہاں کارخانے نہیں لگائے بلکہ یہاں سے صنعتی خام مال کپاس، گھاس، تمباکو اور گنا وغیرہ لندن میں کارخانوں کو بھیج دیا جاتا اور پھر وہاں سے مصنوعات کو تیار کرکے پوری دنیا میں برآمد کیا جاتا۔ سستے نرخوں پر خام مال کی خریداری اور مہنگے داموں پر اپنی مصنوعات کی فروخت اور بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی رہی۔ اس سیاسی و معاشی استحصال کے خلاف انیسویں صدی کے اواخر میں دادا بھائی نوروجی نے برطانیہ میں بھرپور آواز اٹھائی تھی۔

ایک طرف انگریز افسر ہندوستان میں چند سال گزارنے کے بعد لاکھوں اور کروڑوں روپے کماتے اور دوسری طرف 100 سالہ عرصے میں ہندوستانی ملازمین کی تنخواہ میں ایک روپیہ کا اضافہ نہیں کیا گیا۔ باورچی کی تنخواہ پانچ روپے، صفائی کرنے والوں کی تنخواہ تین روپے اور خاتون ملازمہ کی دو روپے تھی۔

کیا انگریز دور میں ہندوستان کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں تھا

آج بھی ہمارے ملک میں بہت سے لوگ کہتے رہتے ہیں کہ انگریزوں کا دور اچھا تھا مگر مندرجہ بالا تمام بحث کا نچوڑ ایک الگ تصویر پیش کرتا ہے۔ تو بات ایسی ہے کہ انگریز انصاف پسند تھے اور ہندوستانیوں کے درمیان مقدمات میں مکمل طور پر انصاف سے کام لیا جاتا۔ وہ خود بھی کام کرنے والے تھے اور دوسروں سے بھی کام لیتے، وقت کے پابند تھے۔ انہوں نے یہاں بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور کالج بنوائیں، تمام ترقیاتی کاموں میں معیاری مواد استعمال ہوتا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے تعمیر کیے گئے سڑک اور عمارات آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہیں۔

کیا ہم آج بھی انگریز کے غلام ہیں؟

اگرچہ انگریز 1947 میں برصغیر کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ لیکن ہندوستان ہو یا پاکستان ثقافتی طور پر ہم آج بھی انگریزوں کے غلام ہیں، آج بھی انگریزی بولنے والے کو ذہین سمجھا جاتا ہے، انگریزی لباس اور کھانوں کے استعمال پر فخر کیا جاتا ہے۔

برصغیر میں مسلمانوں کا عروج و زوال، مختصر مگر جامع مضمون

مودی حکومت میں بھارتی مسلمانوں کا حال، مکمل مضمون

3 thoughts on “برطانوی سامراجیت: انگریزوں نے کس طرح ہندوستان پر حکومت کی”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *