برصغیر میں مسلمانوں کا عروج و زوال، مختصر مگر جامع مضمون

مصنف : عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)

مسلمانوں کی آمد

آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں ایک عرب تجارتی قافلہ سری لنکا سے واپس اپنے وطن جا رہا تھا کہ راستے میں سندھ کے سمندری حدود میں ڈاکوؤں نے یہ قافلہ لوٹ لیا اور تاجروں کو ان کے بیوی، بچوں ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔ یہ سلطنت بنو امیہ کا دور تھا اور حجاز کے گورنر تھے حجاج بن یوسف۔ اس نے سندھ کے بادشاہ راجہ داہر کو ڈاکوؤں کو سزا دینے اور تاجروں کو بمعہ ان کے مال واپس کرنے کے لئے خط لکھا۔ راجہ داہر نے سنی ان سنی کر دی تو حجاج نے 712 میں انتقام لینے کے لیے اپنے نوجوان داماد محمد بن قاسم کی سربراہی میں عرب مسلمانوں پر مشتمل لشکر بھیجا۔ جنگ ہوئی تو راجا داہر مارا گیا اور مسلمانوں نے سندھ اور ملتان تک کا علاقہ قبضہ کیا اور اسے اسلامی سلطنت میں شامل کر دیا گیا۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں ہندو مسلمان ہوگئے۔ چونکہ سندھ کے راستے برصغیر میں اسلام کی آمد ہوئی اس لئے سندھ کو “باب الاسلام” کہا جاتا ہے۔

محمد بن قاسم

محمود غزنوی کے سترہ حملے

افغانستان میں محمود غزنوی اپنے باپ سبگتگین کے وفات کے بعد بادشاہ بنے۔ اس نے 998 سے 1030 تک ہندوستان پر سترہ حملے کیے اور ناقابل شکست رہے۔ غزنوی نے سومناتھ شہر کے بڑے مندر میں بتوں کو توڑ ڈالا۔ اسی مندر میں سینکڑوں کلوگرام ہیرے، جواہرات، سونا اور چاندی برآمد ہوئے۔ غزنوی تمام مال کو مالِ غنیمت کے طور پر قبضے میں لے کر افغانستان واپس ہوئے۔ مسلمانوں کی طرف سے غزنوی کو بت شکن بادشاہ کا خطاب دیا گیا جبکہ ہندو مورخین کی طرف سے ان کو ایک مجاہد کے بجائے ڈاکو پکارا جاتا ہے کہ وہ ہر بار حملہ کرکے لوٹ مار کرکے واپس ہو جاتے۔ غزنوی نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا۔

شھاب الدین غوری کا دہلی کو فتح کرنا

افغانستان میں غوری خاندان نے غزنویوں سے حکومت چھین لی۔ شہاب الدین غوری نے 1192 میں ہندوستان پر حملہ کیا اور ہندوؤں کی متحدہ فوج کو شکست سے دوچار کیا۔ وہ پہلے مسلمان حکمران تھے جس نے دہلی پر اسلام کا پرچم لہرایا۔ اور پھر مسلمانوں کی یہی حکومت 1857 تک قائم رہی۔ غوری کا چونکہ اپنا بیٹا نہ تھا یوں اس نے اپنے ایک قابل ترین غلام قطب الدین ایبک کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ 1206 میں جہلم میں غوری پر نامعلوم افراد کی طرف سے حملہ ہوا اور اسے قتل کر دیا گیا۔ قطب الدین ایبک ہندوستان کے بادشاہ بنے کیونکہ وہ غلام تھے اور اس کے بعد بھی کئی غلام تخت نشین ہوئے تو اس وجہ سے ان کو خاندان غلاماں کا نام دیا گیا۔

دیگر خاندان جنہوں نے ہندوستان پر حکومت کی

انتہائی مختصر الفاظ میں بات کی جائے تو غوری سے بہادر شاہ ظفر تک جن لوگوں یا خاندانوں نے ہندوستان پر حکومت کی، وہ یا تو ترک تھے یا افغان۔ یعنی کہ ہندوستان پر اکثر باہر سے لوگ آکر قابض ہوئے۔ جن خاندانوں نے ہندوستان پر حکومت کیں ان کے نام خاندان غلاماں، خلجی، تغلق، سید، لودھی اور مغل تھے۔ خلجی خاندان سے تعلق رکھنے والے علاء الدین خلجی بہت اہل اور قابل حکمران ثابت ہوئے تھے وہ حکمرانی کے باریکیوں سے سے خبردار تھے، اس نے کئی اصلاحات متعارف کروائیں تھیں۔

مغلیہ سلطنت

ظہیر الدین بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر ازبکستان سے تعلق رکھتے تھے جس نے پہلے افغانستان اور پھر ہندوستان کو فتح کیا۔ مغلیہ دور حکومت ہندوستان کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔

بابر کے بیٹے ہمایوں سے پختون بادشاہ شیر شاہ سوری نے تخت چین لی تھی۔ شیر شاہ سوری نے سات سال تک ہندوستان پر حکومت کی تھی اور مغلوں کے بعد میں آنے والے تمام بادشاہوں نے شیر شاہ سوری کی طرز حکمرانی کو نقل کیا تھا، وہ ایک بہترین منتظم تھے اور اپنے سات سالہ قلیل عرصے میں بہت زیادہ ترقیاتی منصوبوں پر کام کر چکے۔ سوری کے وفات کے بعد 1555 میں ہمایون ان کے بیٹوں سے اپنا تخت واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔

ہمایوں کے بیٹے جلال الدین محمد اکبر نے اپنے دور میں “دین الہی” کے نام سے ایک نیا دین بنایا تھا جو مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں سے ختم ہوا۔

مسلمانوں کا زوال 1707 میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے ساتھ شروع ہوا۔ کیونکہ ان کے بعد جو لوگ تخت پر بیٹھے وہ نااہل ثابت ہوئے۔ مثلاً محمد شاہ رنگیلا بادشاہ تھے تو ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا۔ جب ہر روز رنگیلا کو نادر شاہ کے حملے اور آگے بڑھنے کی خبر دی جاتی تو وہ کہتا تھا کہ “دلی دور است” یعنی کہ دہلی ابھی دور ہے۔ اور پھر وہی ہوا کہ نادر شاہ دہلی پہنچے اور یہاں لوٹ مار اور قتل و غارتگری کرکے واپس لوٹے۔

انگریزوں نے ارادے تبدیل کر دیے

مسلمانوں کا زوال دیکھ کر انگریز جو جہانگیر کے زمانے میں تجارت کے لیے ہندوستان آئے تھے اب ہندوستان پر حکمرانی کے خواب دیکھنے لگے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی ایک فوج بنائی، قلعے تعمیر کیے اور علاقے فتح کرنے میں لگ گئے۔ 1757 میں سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال پر قبضہ کیا گیا۔ یہ انگریزوں کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے واپس مڑ کر نہ دیکھا اور اگلے سو سالوں میں پورے ہندوستان کو اپنی کالونی بنا کر دم لیا۔

مرہٹے خطرہ بن کر سامنے آئیں

مرہٹوں نے مسلمانوں کے خلاف بغاوت کی اور ایک بہت بڑا علاقہ قبضے میں لے لیا۔ شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی دعوت پر افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے 1761 میں ہندوستان پر حملہ کیا اور پانی پت کی تیسری جنگ میں ان ہندوؤں کا غرور خاک میں ملا دیا۔ مگر مغل بادشاہ پھر بھی خواب سے بیدار نہ ہو سکے۔

احمد شاہ ابدالی

جنگ آزادی 1857

انگریز اس جنگ کو بغاوت جبکہ ہندوستانی اسے جنگ آزادی کا نام دیتے ہے۔ 1857 میں آخری مسلمان حکمران بہادر شاہ ظفر کی حکومت صرف دلی تک محدود تھی باقی ہندوستان انگریزوں کے قبضے میں آ چکا تھا۔ ہندوستانیوں کی طرف سے انگریزوں کے خلاف بادشاہ کی اجازت سے یہ جنگ لڑی گئی جس میں انگریزوں نے فتح حاصل کی۔ بہادر شاہ ظفر کو رنگون (برما) میں قید کر دیا گیا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا اور اسی عالم میں بادشاہ جیل کے اندر وفات پا گئے۔ جنگ آزادی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو ختم کر دیا گیا اور ہندوستان براہ راست برطانوی بادشاہ کے زیر حکومت آیا۔ یہ حکومت اگلے 90 سال تک قائم رہی جب 1947 میں انگریز یہاں سے واپس چلے گئے۔

زوال کے اسباب

مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی دین سے دوری، مادی ترقی میں پیچھے رہ جانا، کرپشن، ناانصافی، اشرافیہ کی عیاشیاں اور رعایا کی بدحالی تھیں۔

برطانوی سامراجیت: انگریزوں نے کس طرح ہندوستان پر حکومت کی

مودی حکومت میں بھارتی مسلمانوں کا حال، مکمل مضمون

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *