بحث اور گفتگو کے آداب

مصنف ؛ عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر )

ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے ۔ یہ تقسیم لسانی ، جغرافیائی ، سماجی ، سیاسی اور مذہبی وغیرہ بنیادوں پر ہے ۔ اس وجہ سے ایک فرقے یا سیاسی جماعت کے لوگ مخالفین سے بحث صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو صحیح اور دوسرے کو غلط ثابت کیا جائے ۔

آج کل کا ہمارا معاشرہ ایک بحث زدہ معاشرہ بن چکا ہے ۔ گھر ، دفتر ، بازار ، پارک ، یونیورسٹی حتیٰ کہ مساجد بھی لوگوں کے درمیان ان مباحثوں سے خالی نہیں ہے اور بدقسمتی سے اس میں سے اکثر مباحثے بے مقصد اور بے فائدہ ہوتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ یونانی فلسفی سقراط یا ارسطو کے پاس کوئی شخص آکر کہنے لگا کہ ایک بات کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے پوچھا کہ کیا اس بات میں میرا ، آپ کا یا معاشرے کا کوئی فایدہ ہے اور جب اس شخص نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے کہا پھر ایسی بات کرنی ہی نہیں چاہیئے ۔ یعنی کہ بحث و مباحثے ایک مقصد کے لیے ہوتے ہیں ۔

مہذب معاشروں میں بحث ہار اور جیت کے لیے نہیں ہوتے بلکہ کچھ نیا سننے اور سیکھنے یا ایک دوسرے کے خیالات کو جاننے کے لیے ہوتے ہیں ۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بحث علمی اور عقلی لحاظ سے برابر لوگوں کے درمیان ہوتی ہے ۔ اگر ایک تعلیم یافتہ شخص جاہلوں یا ایک بزرگ آدمی بچوں کے ساتھ بحث کرے گا تو گناہگار یہ تعلیم یافتہ اور بزرگ اصحاب ہوں گے نہ کہ وہ جاہل یا بچے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گفتگو کا طریقہ

ہمارے پیغمبر اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو کرتے تو کبھی کسی کی بات نہ کاٹتے ۔ جب بات کرنے والا اپنی بات ختم کر دیتا تو پھر اطمینان سے جواب دیتے ۔ یاد رکھیں جب آپ کسی کی بات کاٹتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ میں سننے کی صلاحیت نہیں ہے یا کہ آپ کی بات کہنے والے کی بات سے زیادہ اہم ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کے دوران تمام ساتھیوں کو برابر توجہ دیتے تھے اور اپنی آواز کو حاضرین کی تعداد کے مناسبت سے اونچا یا نیچا رکھتے ۔ آپ نے کبھی کسی کی توہین کی نہ تحقیر ۔

صبر اور ہمدردی

آپ کے دل میں دوسروں کے لیے ہمدردی ہو تو آپ کبھی بھی ان کو ناراض کرنے کی حد تک نہیں جا سکتے ۔ آپ کو دوسروں کی بات صبر سے سننی چاہئے خواہ وہ آپ کے رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو پاکستانی معاشرے میں آج یہی صبر اور برداشت ناپید ہوچکی ہے اور ہمارے اکثر لڑائی جھگڑے اسی وجہ سے ہے ۔

ادب

بحث کے دوران ادب کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے سوشل میڈیا پر کسی کی پوسٹ پر تبصرے کرتے وقت توہین آمیز زبان استعمال کرنے سے ایک طرف تو آپ کی ذہنی سطح عیاں ہوتی ہے اور دوسری طرف پوسٹ کرنے والے کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔

عنوان مقرر کرنا

بحث سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے پہلے عنوان مقرر کرنا چاہیے اور پھر بحث کے دوران اسی عنوان پر فوکس کرنا چاہیے ۔ اختلاف کی صورت میں اپنی رائے کا اظہار کریں لیکن ایک دوسرے پر ذاتی حملوں سے اجتناب کریں ۔

کن لوگوں سے بچا جائے

کئی قسم کے لوگ ہیں جن سے بحث نہیں کرنی چاہیے مثال کے طور پر

خود پسندی کے شکار لوگ صرف اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں اگر آپ ان کے ہاں میں ہاں نہیں ملاتے یا ان پر تنقید کرتے ہیں تو وہ بھڑک جاتے ہیں، ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے ۔

بحث کے دوران جن کے پاس دلیل کے ہتھیار نہیں ہوتے وہ اکثر آواز اونچا کرکے شوروغل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان لوگوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے ۔

بند ذہن والے لوگ کبھی بھی نئے نظریات و خیالات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ۔

کچھ لوگ علم کی کمی کی وجہ سے سازشی نظریات کا شکار ہوتے ہیں ، سنی سنائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں ، جھوٹ میں زندگی گزارتے ہیں ان سے سائیڈ لینی چاہیے ۔

اس کے علاوہ گفتگو صاف اور آسان زبان میں ، مختصر ، حاضرین کے ذہنی سطح کے مطابق اور مفید ہونی چاہیے ۔

2 thoughts on “بحث اور گفتگو کے آداب”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *