مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
تین جون 1947 کو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا۔ دراصل انگریزوں نے جہاں بھی حکومت کی ان کی پالیسی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی رہی۔ جیسا کہ پوری عرب دنیا یا تو ایک یونٹ کے طور پر خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا یا انگریزوں کے قبضہ میں چلے جانے اور پھر آزادی کے بعد 22 ٹکڑوں میں بٹ چکا۔ اسی طرح 1965 میں سنگاپور کو ملائشیا سے الگ کردیا گیا تو مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے۔ مختصر یہ کہ تقسیم ہند کا منصوبہ خالصتاً برطانوی سامراج کا منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کے سلسلے میں مسلم لیگ اور قائداعظم کا کردار محض رسمی تھا۔ مسلم لیگ کو انگریز سرکار کا “بی ٹیم”بھی کہا جاتا تھا۔ جن کا کام انگریز انتظامیہ کو ہندوستان کے انتظام چلانے میں سہولت مہیا کرنا تھا۔ یہ جماعت شروع سے مغرب زدہ اور مغرب پرست سیکولر اور جاگیردار ٹولے کی گرفت میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیوبند کے علماء کے مطابق مسلم لیگ کے رہنما وہ لوگ ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ نماز میں کتنے فرائض ہیں۔
تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس، مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی، جمعیت علمائے ہند ، خدائی خدمت گار، یونینسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی وغیرہ تھیں۔ ان تمام جماعتوں میں مسلم لیگ کے علاوہ کوئی بھی پارٹی تقسیم ہند کے حق میں نہ تھی۔
انگریز ہندوستان کو کیوں تقسیم کرنا چاہتے تھے؟
سب سے اہم کام اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے۔ اور اس سوال کے جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں اس زمانے کے بین الاقوامی سیاست پر ایک نظر دوڑانی ہوگی۔ 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا کثیر قطبی (جب دنیا میں دو سے زیادہ سپر پاور ہو) سے دو قطبی (جب دنیا میں دو عالمی طاقت ہو) بن چکی۔ یہ دو عالمی طاقتیں روس اور امریکا تھیں۔ دونوں کے درمیان سرد جنگ کی شکل میں ایک نظریاتی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والا برطانیہ اب امریکہ کے شاگرد کے طور پر سامنے آ چکا تھا۔ تو دراصل تقسیم ہند کا منصوبہ برطانیہ سے زیادہ امریکہ کی چاہت تھی۔

انیس سو چھیالیس سے کانگریس پارٹی کی صدارت جواہر لال نہرو کے پاس آ چکی تھی۔ نہرو اور کانگریسی رہنماؤں کے علاوہ دیگر سامراج مخالف رہنماؤں کا جھکاؤ بھی روس کی طرف تھا۔ برطانیہ کے ساتھ یہ ڈر تھا کہ اگر ہندوستان روس اور چین کے ساتھ سوشلسٹ بلاک کا حصہ بن گیا تو مستقبل میں ان ممالک کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا اور دنیا میں طاقت کا توازن مکمل طور پر مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ یوں امریکا اور برطانیہ نے ہندوستان کو کمیونزم سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک نظریاتی مملکت کے طور پر پاکستان کو قائم کیا اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ روس کے بجائے امریکہ کا اتحادی بن چکا۔ امریکہ کے اتحادی بننے میں ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ عوام کو اس بات پر ورغلا دیا گیا کہ امریکہ والے اہل کتاب ہیں جبکہ روسی تو دہریہ ہیں جو خدا کو بھی نہیں مانتے۔
اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو غالب امکان تھا کہ ہندوستان روس اور چین کے ساتھ سوشلسٹ بلاک میں شامل ہوتا۔ متحدہ ہندوستان کبھی بھی پاکستان کی طرح امریکہ کا اڈہ نہ بنتا اور اس بات کی بھی امکان تھی کہ افغانستان جنگوں کا شکار نہ ہوتا۔
اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا، تو نہ کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوتا نہ پاک بھارت جنگیں ہوتیں اور نہ بنگلہ دیش بنتا۔ پاک بھارت دشمنی نہ ہوتی تو دفاع پر اتنے پیسے خرچ نہ ہوتے۔ ظاہر ہے پھر یہ رقم ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی پر ہی خرچ ہوتی۔ ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہوتا جن کی آبادی ایک ارب 80 کروڑ ہوتی۔ یہی نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست بھی ہوتی جہاں مسلمانوں کی آبادی 60 کروڑ کے لگ بھگ ہوتی۔ اور ان تمام ممکنات کے نتیجے میں ہندوستان یعنی ہمارا ملک ایک مکمل عالمی طاقت کے طور پر آج دنیا کے سٹیج پر موجود ہوتی۔

تقسیم ہند کا نام نہاد فایدہ اور ان کی حقیقت
پاکستان میں لاعلمی کی وجہ سے عوام تقسیم ہند کا یہ فائدہ بتا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنا ملک نصیب ہوا اور آج ہم ہندو اکثریت کی غلبے سے آزاد ہے۔ یہ بات ٹھیک بھی ہے مگر باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمانوں کا بھلا ہونے کے بجائے نقصان زیادہ ہوا ہے مگر کیسے؟
سادہ سی بات ہے کہ کسی قوم یا گروہ کی تقسیم ہونے کی صورت میں ان کی طاقت بڑھتی نہیں بلکہ گھٹتی ہے۔ آج برصغیر کے مسلمان پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے تین ممالک میں تقسیم ہیں جبکہ ہندوؤں کی اکثریت (لگ بھگ ایک ارب لوگ) بھارت کے اندر اکٹھے رہ رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھارت کے اندر پاکستان کے برابر مسلمانوں کی آبادی مکمل طور پر ہندو انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی مسلمانوں پر رہنے کے لیے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستانیوں کے مطابق بھارتی مسلمانوں کا جو برا حال ہے تو متحدہ ہندوستان کی صورت میں آج ہمارا بھی یہی حال ہوتا۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ متحدہ ہندوستان میں 60 کروڑ مسلمانوں کے ہوتے ہوئے مودی حکومت جیسے انتہا پسندوں کا اقتدار میں آنا ناممکن تھا۔ ہم نے پاکستان میں اپنے نام نہاد تحفظ کی خاطر بھارتی مسلمانوں کو انتہا پسندوں کے آگے پھینک دیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے قائم کی گئی یہ ریاست 1971 میں دو ٹکڑوں میں کیوں بٹ چکی، کیا مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمان نہیں تھے اور آج ہمارا یہ حال ہے کہ بنگلہ دیشی اور افغان مسلمان ہم سے نفرت کر رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ ان کی قربت ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہم ہندوؤں کی غلامی سے اپنے آپ کو بچانا چاہتے تھے یعنی اکثریت کے غلبے سے۔ تو کیا آج پاکستان میں چھوٹے اقوام پنجابی اکثریت کی غلامی سے آزاد ہے؟ اس ملک کے وسائل پر پنجاب کے سول اور ملٹری بیوروکریسی کا مکمل قبضہ ہے۔ جو وزیرستان میں ہوا اور جو بلوچستان میں ہو رہا ہے شاید متحدہ ہندوستان میں ایسا نہ ہوتا۔
تقسیم ہند کا نقصان کس کو ہوا؟
بھارت 138 کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، معاشی طاقت کے لحاظ سے پانچواں اور دفاعی طاقت کے لحاظ سے پانچویں سے ساتویں درجے کے درمیان ہے۔ مجموعی طور پر امریکا ، روس اور چین کے بعد طاقت کے دوڑ میں بھارت کا نمبر آتا ہے۔ چین کے علاوہ دنیا کے تمام اہم ممالک بشمول ویٹو پاور کے بھارت کو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے پر راضی ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2019 میں جب پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھارت کے خلاف کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا کیس فائل کیا۔ تو کیس پر کاروائی شروع کرنے کے لیے پاکستان کو دوسرے ممالک سے پچاس ووٹ درکار تھے۔ پاکستان نے 42 ووٹ حاصل کیے۔ ووٹ نہ دینے والے ممالک میں ہمارے برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی شامل تھے۔ کیونکہ بھارت کو ناراض کرنا ان ممالک کے لئے معاشی طور پر نقصان دہ ہے۔ بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا پر راج کر رہا ہے۔ آئی پی ایل کھیلوں کی دنیا کی دوسری بڑی لیگ ہے جبکہ بالی وڈ فلم پروڈکشن کے لحاظ سے پہلے اور منافع کمانے کی دوڑ میں ہالی وڈ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود معیشت میں بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا یہ پانچواں بڑا ملک معاشی طور پر چالیس ویں نمبر پر ہے۔ بدقسمتی سے یہ ملک آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بغیر چلنے کا قابل بھی نہیں۔ معاشی امداد کی خاطر حکومت کبھی امریکہ کے در پر ہوتا ہے تو کبھی چین یا سعودی عرب۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ تقسیم ہند سے ہمیں فائدہ ہوا یا نقصان۔
سپر پاور کی کہانی، زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک
جشن آزادی مبارک: پاکستان کی 75 سالہ کامیابیوں پر ایک نظر
تنہائی اچھی یا بری؟
Good 👍 👍 👍
ALLAH hamarai mulk par raham atta parmai ,bohut zabardast maloomat tee Ma Sha ALLAH .
اس بلاگ کو پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان سٹڈیز میں جو بھی ہمیں پڑھایا گیا اور جو موجودہ پڑھایا جا رہا ہے سب کے سب جھوٹ ہے اور کچھہ نہیں ۔۔۔
100% true