اسلام کی روشنی میں اخلاق کی تعریف ، فوائد اور حصول

مصنف: عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

انسان کی پہچان انکے اخلاق ہوتے ہیں ۔ ان کے قول و فعل سے ان کی تعلیم اور تہذیب کی پہچان ہوتی ہے ۔ اخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگا لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ دین کیا ہے تو آپ نے فرمایا “حسن خلق”۔ آپ نے خوش خلقی کو سب سے اچھا عمل قرار دے دیا ہے ۔

لقمان حکیم صاحب نے اپنے بیٹے کو پانچ اچھی خصلتیں بیان فرمائی جو ” دین، مال، حیا، حسن خلق اور سخاوت” تھیں ۔

اخلاق کی اصل حکمت ہے ۔

محاسن اخلاق کے چار اصول ہیں “حکمت (علم اور سمجھداری)، شجاعت (بہادری)، عفت (معاف کرنا) اور عدالت (انصاف کرنا) ۔ ان چاروں میں کمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی البتہ جو شخص ان اخلاق میں جس قدر آپ قریب ہوگا وہ اس قدر اللّٰہ تعالیٰ کے قریب ہوگا ۔

برے اخلاق کا انجام

اخلاقی خبیث روح کی بیماریاں ہے بدن کی بیماری ہے دنیا کی زندگی سے محروم کردیتی ہے اور روح کی بیماریاں آخرت کی زندگی سے جس کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں ان کو شیطان کا نمائندہ قرار دے دیا گیا ہے۔

خوش خلقی کے علامات

قرآن کریم میں تین جگہوں سورت التوبہ آیت نمبر 112، سورت المؤمنون آیات 1 تا 10 اور سورت فرقان آیت نمبر 63 میں مومنوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ۔ امام غزالی نے احیاء العلوم میں اسے اخلاقی اقدار کا معیار قرار دے دیا ہے ۔اور فرمایا ہے کہ ان کی روشنی میں اپنے آپ کا جائزہ لینا چاہیے جو موجود ہے ان کی حفاظت کرنی چاہیے اور جو مفقود ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش ان آیات میں اخلاق کے متعلق جواب صاف بیان ہوئے ہیں وہ ارکان اسلام کی ادائیگی کی یعنی کا یہ فرض عبادات بھی اخلاق کے اندر داخل ہے لاکھوں عبادتوں سے پرائز پرویز مشرف گاہوں کی حفاظت اور وعدوں کا خیال رکھنا اتنا عاجزی مہمان نوازی خاموشی جب خیر کی کوئی بات نہ ہو کم سے کم حد تک مخالفت کرنا انتقام نہ لینا ، اپنے عیوب پر نظر رکھنا نا معذرت قبول کرلینا مسلمانوں کو تکلیف دے نہ آیا سچ بولنا صبر اور بردباری خسروی اور ماں کی مجالس میں بیٹھنا شامل ہیں ۔

حسن خلق کی پہلی آزمائش یہ ہے کہ دوسروں کی بد اخلاقی پر صبر کیا جائے ۔

اچھے اخلاق والا کیسے بنا جائے

اخلاط طبعی (پیدائشی) بھی ہوتے ہیں اور کسبی بھی ۔ اکتساب کی ابتدا میں تکلیف ہوتی ہے لیکن پھر عادت بن جاتی ہے۔ فطری جذبات ہم ختم نہیں کر سکتے مگر اسے قابو میں رکھ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا “اپنے اخلاق اچھے بناؤ”۔

اچھے اخلاق کی حصول کے لیے اچھا ماحول ضروری ہے جیسا کہ اگر کوئی شخص سخی بننا چاہتا ہے تو اسے سخی لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہیے یا سخاوت سے متعلقہ واقعات اور فضائل پڑھنے چاہیے ۔ اسی طرح والدین کے اخلاق کا بھی بچوں کے اخلاق پر اثر ہوتا ہے ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ہر چیز کا حصول بتدریج ہے اور اس میں وقت لگتا ہے۔

بچوں کی اخلاقی تربیت

سب سے پہلے بچے کو کھانے کے آداب سکھانے چاہیے اور اسے بسیارخوری سے منع کرنا چاہیے لڑکوں کو ریشمی اور چمکدار کا پانی بہنا نے چاہیے ان کو نہ ذرا ذرا سکھانے کے لئے نیک اور ماہر استاد کے ساتھ بٹھانا چاہیے بچپن میں انہیں عشق اور شاعری کے قصے سنانے کے بجائے اچھے اور برے ، صحیح و غلط کی پہچان والی کہانیاں سنانی چاہیے ۔ ان کو سستی اور آرام طلبی سے منع کرنا چاہیے ۔

بچوں کو ایک کے اچھے کاموں پر ان کی تعریف کرنی چاہیے ہمارے معاشروں میں بچوں کا حوصلہ نہیں بنایا جاتا ہے دوسری طرف برے کاموں پر اودھم بھی دینی چاہیے انھیں پیار سے سمجھانا چاہیے مار پیٹ اچھی چیز نہیں ہے ۔ البتہ اگر مارنا آخری حربے کے طور پر ہو تو پھر ٹھیک ہے بلکہ اصلاح کے لئے تو باپ کا بچوں کو مارنا ایسا ہے جیسا کہ پودوں کو پانی دینا ۔

مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مارنے کے بھی کچھ آداب ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ آخری آپشن کے طور پر استعمال ہونا چاہیے ۔ دوسرا ایسی جگہوں پر بچوں کو نہیں مارنا چاہئے کہ وہ معذور یا بیمار ہوجائے مثلاً کے سر ، کمر ، پیٹ وغیرہ ۔ تیسرا اگر آپ چھڑی کا استعمال کر رہے ہیں تو دیکھ لیں کہ چھڑی میں کوئی ایسی مضر چیز نہ ہو جیسا کہ کیل وغیرہ جس سے بچہ زخمی ہو جائے ۔ اور چوتھا کہ مار کا مقصد اصلاح ہونی چاہیے اگر وہ ایک تھپڑ سے حاصل ہوتا ہے تو دوسرا نہیں مارنا چاہئے۔

بچوں کے سامنے اپنے مال ، خاندان وغیرہ پر فخر نہیں کرنا چاہیے تاکہ ان میں عجز و انکساری پیدا ہو۔

دیگر کام جن سے بچوں کو منع کرنا چاہیے

بچوں کو زیادہ بولنے ، جھوٹ بولنے ، بڑوں کی بات کاٹنے ، بڑوں کو جگہ نہ دینے، بیٹھنے کی جگہ پر تھوکنے ، کسی کی طرف پشت کرنے ، لوگوں کی غیبت کرنے اور فحش کلامی سے منع کرنا چاہیے۔

انہیں عبادت اور ادب کی ترغیب دینی چاہیے ۔

دنيا کی تاریخ ، آٹھواں حصہ: بیسویں صدی پر ایک نظر

آج کی دنیا میں سافٹ سکلز کی اہمیت

فلسفہ کسے کہتے ہیں، فلسفی کون ہوتا ہے؟ جانئیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *