اسلامی فلسفہ کے نمایاں خصوصیات ، آئیے اسلامی فلسفہ کو جاننے کی کوشش کریں ۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ فلسفہ کیا ہے تو
فلسفہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کی معنی ہے “علم سے محبت”۔ ہم فلسفے کی ایک یا دو لائن میں ایک متفقہ تعریف نہیں کر سکتے مگر یہ کہ فلسفہ دراصل چیزوں کی وجود اور حقیقت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایک فلسفی سوالات بناتا ہے، سوالات اٹھاتا ہے اور سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ سوالات کیا ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پر خدا، انسان، دنیا، آخرت، زندگی، موت، نفس، روح اور شیطان کی وجود اور حقیقت کو معلوم کرنا وغیرہ ۔ اس لحاظ سے اگر ہم غور کریں تو فلسفہ سب سے اہم مضمون معلوم ہوتا ہے ۔

جب ہم اسلامی فلسفہ کی بات کرتے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام تو مذہب ہے اس کے فلسفے سے کیا لینا دینا ۔ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر مذہب کے اندر مندرجہ بالا چیزوں کی حقیقت کے بارے میں تصورات موجود ہوتے ہیں اس لئے تمام مذاہب بشمول اسلام کے اندر فلسفے کا ایک باب موجود ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے بہت بڑے اور عظیم فلسفی گزرے ہیں انفرادی طور پر ان فلسفیوں کے درمیان بھی کئی امور پر اختلاف پایا جاتا ہے ان کا ذکر الگ الگ ہونا ضروری ہے ۔ یہاں مجموعی طور پر متفقہ اسلامی فلسفہ کا جائزہ لیا جائے گا ۔

ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم اسلامی فلسفہ کے ان خصوصیات کو پہلے سے ہی تقریباً جانتے ہیں مگر اس پر ایک طائرانہ نظر دوڑانے کے بعد ہم آنے والے بلاگز میں دنیا کے دیگر مذہبی فلسفوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے جو ایک بہت دلچسپ موازنہ ثابت ہوگا ان شاءاللہ۔

اسلامی فلسفہ کے اہم نکات

خدا کی ذات

انسان کا جب سے فلسفہ کے ساتھ واسطہ پڑا ہے تو اس کے ذہن میں جو پہلا سوال ابھرتا ہے وہ یا تو کائنات کے بارے میں ہوتا ہے یا کائنات کے پیدا کرنے والے کے بارے میں۔ دنیا کی تمام فلسفی خدا کی ذات کے بارے میں رائے دے چکے ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اسلامی فلسفہ اور تعلیمات کا مرکزی خیال توحید ہے کہ خدا ایک ہے اور وہ اپنی ذات اور صفات میں ناقابل تقسیم ، منفرد اور بے مثال ہے اس کو الہی اتحاد بھی کہا جاتا ہے۔

تقدیر اور انسانی اختیار کا آپس میں تعلق

مسلمان ایک طرف تو تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں مگر دوسری طرف اسلامی فلسفہ کا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کو خدا نے پورا پورا اختیار دیا ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اچھا یا برا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب کچھ انسان کے اختیار میں ہیں تو پھر تقدیر کا کیا مطلب ہے اور اگر سب کچھ خدا کی مرضی ( تقدیر ) کے مطابق ہو رہا ہے تو پھر اس انسانی اختیار کا مطلب کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام مسلمان اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر تقدیر خدا نے لکھی ہے تو پھر انسانوں کو اپنے گناہوں کی سزا کیونکر دی جائے گی ۔ تو اس بات کا جواب یہ ہے کہ دراصل سب کچھ خدا کی علم میں ہے بشمول لوگوں کے اچھے اور برے کے انتخاب کے ، یعنی کہ اصل میں اللہ تعالی نے لوگوں کے اختیار کے مطابق جو ہونے والا ہیں ان کو تقدیر کی شکل میں لکھا ہے۔

موت

اسلامی فلسفہ کے مطابق موت دراصل انتقال کا نام ہے یعنی کہ موت سے انسان ختم نہیں ہو جاتا بلکہ وہ اس دنیا سے عالم برزخ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جسے وہاں دوبارہ زندہ کیا جاتا ہے اور پھر قیامت کے دن اس سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور ان اعمال کے مطابق اسے یا تو جنت میں داخل کیا جائے گا یا سزا پانے کے لیے دوزخ میں ۔ اسے عقیدہ آخرت بھی کہا جاتا ہے ۔

وحی اور رسالت

مسلمان فلسفیوں کے مطابق خدا نے آدم علیہ السلام سے لیکر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ہیں جو خدا کے منتخب اور برگزیدہ بندے تھے ۔ ان کا کام لوگوں کو راہ راست پر لانا تھا جبکہ وحی خدا کے پیغام کو فرشتے ( عموماً جبرائیل علیہ السلام ) کے ذریعے پیغمبر کو پہنچانے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر ہے ۔ یوں آپ کی تعلیمات قیامت تک کے تمام انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے ۔

عیسائی اور یہودی تمام پیغمبروں کو مانتے ہیں مگر پیغمبر اسلام پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے کافر کہلائے جاتے ہیں۔

معافی کا تصور

اسلامی تعلیمات میں دوسروں کو معاف کرنے ، اپنے کسی غلط کام پر دوسروں سے معافی مانگنے ، دوسروں کی معذرت قبول کرنے اور اپنے گناہوں پر اللّٰہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے اپنی زندگیوں میں عملی طور پر ایسے اعمال کا مظاہرہ کیا ہے ۔

معاشرتی مساوات

یونانی فلسفی افلاطون نے اپنی خیالی ریاست کے اندر حکمران اور فوجی طبقات کے لیے خواتین کو جانوروں کی طرح خریدنے اور استعمال کرنے کی تجویز دی تھی تو ارسطو نے خواتین اور غلاموں کو تعلیم حاصل کرنے کی حق سے بھی محروم کر رکھا تھا جبکہ ہندوؤں کے درمیان تو باقاعدہ ذات پات کا ایک نظام موجود تھا ۔ اس کے مقابلے میں قرآن نے برتری کا معیار صرف اور صرف تقوی کو قرار دے دیا یعنی کہ ہو سکتا ہے کہ غلام اپنے عمل کی وجہ سے اللّٰہ کے نزدیک اپنے آقا سے بھی زیادہ معتبر ہو ۔ جیسا کہ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

اخلاقی اقدار

اسلامی فلسفہ میں اخلاقیات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس ضمن میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اخلاق کو ایک نمونہ اور معیار گردانا گیا ہے جو سچائی ، امانتداری ، رحمدلی ، ہمدردی ، انصاف اور ایثار کے پیکر تھے ۔ مسلمانوں کو یہی تمام اخلاقی اوصاف اپنانے کا حکم دیا گیا ہے ۔

فلسفہ کسے کہتے ہیں، فلسفی کون ہوتا ہے؟ جانئیے۔

نظریہ کشش اور نظریہ محبت کا موازنہ

روح، دل اور نفس کی حقیقت

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *