مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )
اگرچہ آج کی دنیا میں غلامی کی وہ شکل تو موجود نہیں ہے جب غلاموں کی خرید و فروخت کے لئے باقاعدہ منڈیاں لگتی رہتی تھیں۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں غلامی پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ ماضی کی غلام اقوام بھی اب آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ مگر دور جدید میں غلامی کے کئی نئے اقسام وجود میں آ چکے ہیں مثلا آزاد ممالک میں بھی اگر شہری اپنے بنیادی انسانی حقوق کو استعمال کرنے سے قاصر ہیں تو یہ آزادی کے ساتھ مذاق ہے۔ اکثر مالدار گھرانوں میں غریب ملازموں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھنا بھی معمول بن چکا ہے۔ مگر اس بلاگ میں ہم جس آزادی اور غلامی کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ ہمارا انفرادی مسئلہ ہے۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے
Human beings are born free but they are everywhere in chains.
انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں مگر ہر طرف سے زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
حسوں کی غلامی
سب سے پہلے تو ہم اپنی حسوں کے غلام ہوتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ خوش ذائقہ خوراکوں (اگرچہ وہ مضر صحت ہی کیوں نہ ہو) کے پیچھے پاگل ہوتے ہیں، کچھ لوگ ہر وقت ڈائٹ کی فکر میں لگے رہتے ہیں تو کچھ لوگوں پر ہر وقت کھانے کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ یہی حال دوسرے حسوں کا بھی ہوتا ہے۔
خود پرستی بھی غلامی ہے
خود پرست لوگ ہر وقت اپنی سٹیٹس کی غلامی میں گرفتار ہوتے ہیں، یہ لوگ جھوٹی تعریف پر خوش ہونے والے ہوتے ہیں اکثر اس وجہ سے دھوکا بھی کھاتے ہیں۔ مگر دوسری طرف اپنے متعلق معمولی تنقید (خواہ وہ تعمیری ہی کیوں نہ ہو) برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یہی لوگ اپنی تعلیمی ڈگریوں پر فخر کرتے رہتے ہیں اور اپنے دفتر یا گھر کے کمروں کو ایوارڈز سے سجا کر سینہ چوڑا کرتے رہتے ہیں۔

معاشی غلامی
ملازمت سے متعلق یہ بات تو آپ نے سنی ہوگی کہ نوکری غلامی ہوتی ہے خواہ وہ سرکاری ہو یا نجی، خواہ آپ کی تنخواہ ہزاروں میں ہو یا لاکھوں میں۔ اور اس کا حل معاشی ماہرین اپنا خود کا روزگار بتاتے ہیں۔ معاشی آزادی کے کئی درجات ہوتے ہیں مثلاً پہلا درجہ یہ کہ بندہ کا ایسا روزگار ہو جس سے اس کا گھریلو خرچہ چلتا ہو تو یہ شخص کم از کم معاشی تنگ دستی کی فکر تک تو آزاد ہوتا ہے۔ دوسرا درجہ یہ کہ اس نے اتنی سرمایہ کاری کی ہو کہ ان کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں اور ان کو خود روزگار کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ درجہ پہلے والے سے بہتر ہے۔ تیسرے درجے پر وہ لوگ ہیں جن کے مطابق “جو ہے جتنا ہے، بس کافی ہے” یہ قناعت کا درجہ ہے۔ آج کے دور میں یہ لوگ آٹے میں نمک کی مقدار میں ہیں۔ آپ نے ایسے مالدار دیکھے ہونگے جن کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہوتی مگر وہ مزید دولت بڑھانے کے چکر میں پھنس چکے ہوتے ہیں، یہ لوگ بہت سارے پیسے کے مالک ہو کر بھی معاشی طور پر آزاد نہیں ہوتے۔ اسے پیسہ پرستی یا دولت پرستی کہا جاتا ہے۔
خوف کے غلام
ہم میں سے بہت لوگ ایک ڈر اور خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ ایک خوف حقیقت میں کسی چیز کے خطرے سے متعلق ہوتا ہے وہ تو قدرتی امر ہے۔ مگر ایک ڈر ایسا ہوتا ہے کہ حقیقت میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا مگر صرف ہمارے خیال اور فکر میں ایک خوف ہوتا ہے، مثلاً کہ ایسا نہ ہو جائے ویسا نہ ہو جائے والا معاملہ۔ موجودہ کارپوریٹ دنیا میں “ہائر اینڈ فائر” کی پالیسی کی وجہ سے بعض لوگوں کے ساتھ ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کئی روزگار کھو نہ دیں۔ اس خوف سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ایک ہنر میں کمال تک پہنچائے کہ اگر آپ کی نوکری چلی جائے تو دوسری جگہ اس سے اچھی نوکری ملے یا اپنے آپ کو کئی ہنروں کا مالک بنایا جائے کہ اگر ایک کام نہ ہو تو دوسرے ہنر کے راستے کام کاج کا انتظام کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ خوف کے سائے میں جینے سے یہ بہتر ہے کہ آپ خوف کی وجہ یا وجوہات ختم کرنے پر کام کریں۔
خواہشات کی غلامی
ہم پوری زندگی اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں یہاں تک کہ موت آکر ہمیں دبوچ لیں۔ ہمیں معلوم تک نہیں ہوتا اور ہم اپنی ہی خواہشات کے غلام بنے ہوتے ہیں۔ خواہشات اور مقاصد میں فرق یہی ہے کہ خواہشات کچھ پانے سے متعلق ہوتے ہیں جبکہ مقاصد کچھ کرنے سے متعلق ہوتے ہیں۔ ہمیں مقاصد والا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

شخصیت پرستی کی لعنت
موجودہ زمانے میں خصوصاً تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں یہ بیماری عوام کی جہالت کی وجہ سے ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جن شخصیات کی پوجا کی حد تک پیروی کی جاتی ہیں وہ مذہبی، سیاسی، سماجی یا کسی بھی شعبہ زندگی سے متعلق ہو سکتے ہیں۔ شخصیت پرستی میں جکڑے یہ لوگ اندھے تقلید کرنے والے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انتہا پسند اور تشدد پسند بن جاتے ہیں۔ آج کل کے سیاسی جماعتوں کے کارکنان اس قسم کی غلامی کا زندہ جاوید مثال ہے۔
آزادی کا اعلیٰ درجہ
آزادی کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آپ مکمل طور پر زماں و مکاں کے تصور سے بھی آزاد ہو جائے، بس آپ جہاں بھی ہے ٹھیک ہے۔ وقت کی پابندی سے آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی نظام الاوقات یعنی ٹائم ٹیبل کی پابندی سے آزاد ہو جائے۔ “میں لیٹ ہو رہا ہوں، میرے پاس وقت نہیں ہے” جیسے جملے جب آپ کی زندگی سے نکل جائیں۔ جب آپ کے پاس وقت ہی وقت ہو۔
حقیقی آزادی
اصل آزادی سوچ کی آزادی ہے جب آپ اس دنیا، زندگی، موت، خدا، محبت، نفرت، کامیابی، ناکامی، یعنی دنیا کے تمام چیزوں کو اپنی اصلیت کے ساتھ سمجھ جائے کہ ان تمام چیزوں کی حقیقت کیا ہے۔ کیونکہ بہت سی خوش کن احساسات اور چیزیں بھی دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتیں اور بہت سی بری معلوم ہونے والی چیزیں اصل میں بری نہیں ہوتیں۔ اس قسم کی آزادی کو انگریزی میں freedom at the level of understanding کہا جاتا ہے۔
ہمیں اپنی زندگی کے مقاصد طے کرنے میں “آزادی” کو شامل کرنا چاہیے۔ اس راستے کا مسافر ہونا بھی بڑی بات ہے۔
Great Sir 🥰
Very informative 👏
Behtareen
سر جي ډير خائسته
Very interesting and very informative
Very warm informative
Well composed!
Sahi khabara da ror
ته جوړ نه وې سم شوی بلاګ لوستو تا؟